امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اگلے 50 دنوں میں یوکرین کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق نہ کیا تو روس پر ”سیکنڈری ٹیرف“ کے تحت 100 فیصد محصول عائد کر دیا جائے گا۔
پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا، ’اگر 50 دنوں میں کوئی معاہدہ نہ ہوا تو معاملہ بہت سادہ ہے، ہم 100 فیصد ٹیرف لگا دیں گے، اور یہی طریقہ ہو گا۔‘
صدر ٹرمپ نے یوکرین پر روسی حملوں اور مسلسل بمباری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدر پیوٹن کے طرز عمل سے مایوس ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے پیوٹن سے ناراضگی کا اظہار کر دیا
انہوں نے کہا کہ ’میں صدر پیوٹن سے بہت مایوس ہوں۔ مجھے لگا تھا وہ اپنی باتوں کا مطلب سمجھتے ہیں — وہ بہت خوبصورت انداز میں بات کرتے ہیں، پھر رات کو شہریوں پر بم گراتے ہیں۔ مجھے یہ رویہ بالکل پسند نہیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ امریکا نیٹو کو یوکرین کی حمایت میں جدید اسلحہ فراہم کرے گا، جن میں پیٹریاٹ میزائل سسٹمز بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پیٹریاٹ بیٹریز بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگلے کچھ دنوں میں وہ ممالک جن کے پاس پہلے سے پیٹریاٹ موجود ہیں، وہ انہیں تبدیل کریں گے، اور ہم اپنی سپلائی فراہم کریں گے۔‘
اس موقع پر نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے بھی ٹرمپ کے ہمراہ موجود تھے۔ انہوں نے ٹرمپ کی بات کی حمایت کرتے ہوئے کہا، ’اگر میں آج پیوٹن کی جگہ ہوتا اور 50 دن بعد ممکنہ اقدامات کا ذکر سن رہا ہوتا تو میں ضرور سنجیدگی سے مذاکرات کی طرف آتا۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں جنگ کا جلد خاتمہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن پیوٹن کے رویے نے مایوس کیا۔ ’ہم نے شاید چار بار امن معاہدے کی کوشش کی، مگر ہر بار رات کو بمباری شروع ہو جاتی اور بات چیت ختم ہو جاتی۔‘
صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ پیوٹن کی جانب سے جنگ بندی کی بات کرنے کے باوجود یوکرین کے شہروں پر حملے جاری رکھنے پر برہم ہیں، اور جلد ہی روس پر مزید پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔
ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی بات مزید ایک ہفتے کے لیے ٹال دی
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پیوٹن سے خوش نہیں ہیں — میں بالکل خوش نہیں ہوں کیونکہ وہ بے گناہ لوگوں کو مار رہا ہے۔ یہ جنگ اب پہلے سے کہیں زیادہ خونریز اور طویل ہو چکی ہے۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر امریکا نے واقعی روس پر 100 فیصد ٹیرف عائد کیے تو یہ ماسکو کی معیشت پر کاری ضرب ہو گی، جبکہ ٹرمپ کا یہ جارحانہ مؤقف بین الاقوامی سفارتی فضا میں نئی ہلچل پیدا کر سکتا ہے۔