پاکپتن کے ڈسٹرکٹ اسپتال میں 20 بچوں کی ہلاکت کے دلخراش واقعے میں اہم موڑ سامنے آیا ہے، جہاں مقدمے کے مدعی علی حیدر قادری نے گرفتار ملزمان سے صلح کرلی، جس پر دیگر لواحقین نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق علی حیدر نے 16 جولائی کو ملزمان کے ساتھ راضی نامہ کر کے 17 جولائی کو اسے عدالت میں جمع کروا دیا، جس کے نتیجے میں سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر سہیل اصغر اور اسپتال کے ایم ایس عدنان غفار کی ضمانتیں منظور ہو گئیں۔
تاہم دیگر لواحقین کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر درج کرتے وقت انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، اور نہ ہی انہیں یہ علم تھا کہ علی حیدر واحد مدعی بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ عدالت میں کئی روز تک خود کو مدعی سمجھ کر پیش ہوتے رہے، لیکن جب عدالت میں پہنچے تو پتا چلا کہ وہ کیس میں مدعی ہی نہیں ہیں۔
متاثرہ خاندانوں نے الزام لگایا ہے کہ صلح کی کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے، اور مدعی نے ذاتی طور پر فائدہ اٹھا کر تمام لواحقین کو نظرانداز کیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ صلح نامہ کالعدم قرار دیا جائے، ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کی جائیں اور مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جائے۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ 16 سے 22 جون کے دوران پیش آیا تھا جب ڈسٹرکٹ اسپتال پاکپتن میں ایک ہفتے کے دوران 20 بچوں کی اموات ہوئیں۔ ابتدائی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ زیادہ تر بچے نجی اسپتالوں یا دائیوں کے ذریعے غیر تربیت یافتہ طریقوں سے پیدا کیے گئے، جنہیں حالت بگڑنے پر سرکاری اسپتال لایا گیا۔
محکمہ صحت اور کمشنر ساہیوال کی ابتدائی رپورٹس میں آکسیجن کی بندش کا الزام ثابت نہیں ہوا، تاہم تین نجی اسپتال اور کئی دائیوں کے مراکز کو سیل کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ سطحی تحقیقات اور فوری کارروائی کی ہدایات جاری کی تھیں۔