دنیا میں تیزی سے مقبول ہونے والی ٹیکنالوجی ”مصنوعی ذہانت“ (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) اب سوالات کے گھیرے میں ہے۔ ایک حالیہ تجربے میں سامنے آیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اگر صحیح طریقے سے استعمال نہ ہو تو جھوٹ پھیلانے، نفرت انگیز باتیں دہرانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
مشہور بزنس مین ایلون مسک کا چیٹ باٹ ”گروک“ اس وقت خبروں میں ہے۔ کچھ دن پہلے تک گروک جھوٹے دعوؤں کو پہچان کر انہیں مسترد کر رہا تھا، لیکن جب اس کے سسٹم میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں تو اس نے خطرناک باتیں کہنا شروع کر دیں۔ مثال کے طور پر گروک نے نازی لیڈر ہٹلر کی تعریف کی، یہودیوں کے خلاف باتیں کیں اور امریکہ میں سیاسی تشدد کو درست قرار دیا۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کو کنٹرول کرنے والے افراد چاہیں تو وہ ان چیٹ باٹس کو اپنے سیاسی یا ذاتی نظریات کے مطابق چلا سکتے ہیں۔ ایلون مسک کی تبدیلی نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ایسے سسٹمز کو کسی خاص سوچ یا پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ سسٹم اکثر جھوٹ کو سچ سمجھ کر آگے بڑھا دیتے ہیں، کیونکہ یہ عوامی رائے یا انٹرنیٹ پر موجود مواد کی بنیاد پر کام کرتے ہیں، چاہے وہ مواد غلط ہی کیوں نہ ہو۔ روس جیسے ممالک اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جھوٹی معلومات انٹرنیٹ پر ڈال کر چیٹ بوٹس کو متاثر کر رہے ہیں۔ ایک تحقیق میں پایا گیا کہ 10 میں سے 7 چیٹ بوٹس نے ایک روسی جھوٹی خبر کو سچ مان لیا۔
مزید یہ کہ چیٹ بوٹس اکثر خبر کے اصل سورس کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں اور بغیر تحقیق کے معلومات پھیلا دیتے ہیں، جو کہ عام لوگوں کے لیے گمراہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
اگرچہ ان سسٹمز میں خامیاں ہیں، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر احتیاط سے استعمال کیا جائے تو یہ تحقیق، تجزیے اور سیکھنے کے لیے ایک کارآمد ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ مصنوعی ذہانت ایک طاقتور ٹول ہے، لیکن اس پر اندھا اعتماد خطرناک ہو سکتا ہے۔ سچائی جاننے کے لیے اب بھی انسانی عقل، صحافت اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایسا وقت آ سکتا ہے کہ چیٹ بوٹ جو کچھ بتائے، وہ سچ لگے… چاہے وہ مکمل جھوٹ ہو۔