پاکستان کی فارماسیوٹیکل صنعت نے مالی سال 2024-25 میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 34 فیصد اضافے کے ساتھ 45 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی برآمدات کیں، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس شعبے میں سب سے زیادہ شرح نمو ہے۔ اس طرح دوا ساز صنعت پاکستان کی تیز ترین ترقی کرنے والی پانچویں بڑی برآمدی کیٹیگری بن گئی ہے۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق ، پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کا کہنا ہے کہ گزشتہ مالی سال 2023-24 میں دوا ساز برآمدات 34 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھیں، جب کہ اس سال 11 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس سے قبل 2009 میں فارماسیوٹیکل برآمدات میں 32 فیصد کا اضافہ سب سے نمایاں تھا، جو اب پیچھے رہ گیا ہے۔
فارماسیوٹیکل مصنوعات کے علاوہ تھراپیوٹک سامان — جس میں سرجیکل آلات، فوڈ سپلیمنٹس، میڈیکل ڈیوائسز اور نیوٹراسیوٹیکلز شامل ہیں — ان کی مجموعی برآمدات 90 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں، جو ایک ارب ڈالر کی حد سے صرف 9 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کم ہیں۔
پی پی ایم اے کے چیئرمین توقیر الحق نے بزنس ریکارڈر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس ریکارڈ ساز ترقی کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے قیمتوں کے حوالے سے دی جانے والی ”اچھی پالیسی“ ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ فروری 2024 میں غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن سے دوا ساز کمپنیوں کو برآمدات پر بھرپور توجہ دینے کا موقع ملا۔
ان کے مطابق یہ پالیسی بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ تھی، جس نے دوا ساز اداروں کو افراط زر کے مطابق قیمتوں میں تبدیلی، پیداوار بڑھانے کیلئے نئی سرمایہ کاری، اور ضروری ادویات کی دستیابی بہتر بنانے میں مدد دی۔ اس کے علاوہ یہ قدم بلیک مارکیٹ میں ادویات کی من مانی قیمتوں پر فروخت کو بھی ختم کرنے میں مؤثر ثابت ہوا۔
چیئرمین نے مزید بتایا کہ اس پالیسی سے غیر ملکی دوا ساز کمپنیاں بھی پاکستان میں اپنے کاروبار جاری رکھنے پر آمادہ ہوئیں اور انہوں نے نئی سرمایہ کاری کی، جس سے نہ صرف مقامی سطح پر ویکسین سازی ممکن ہو گی بلکہ ادویات کے خام مال (Active Pharmaceutical Ingredients) کی تیاری بھی ملک کے اندر کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے درآمدی بل میں کمی، متبادل درآمدی پیداوار اور خود انحصاری کو فروغ ملے گا۔
جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز میں گفتگو کرتے ہوئے سیل کمپنی کے ایکسپورٹ نمائندے سید حسن ارسلان نے بتایا کہ پاکستان میں تیار کردہ ادویات کی سب سے بڑی منڈی افغانستان ہے، جس کے بعد فلپائن، سری لنکا، ازبکستان اور فرانسیسی ویسٹ افریقہ کا نمبر آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے جہاں سے بہت مثبت ردعمل مل رہا ہے، جبکہ کینیا، ویتنام، میانمار اور تھائی لینڈ بھی پاکستان کی برآمدی توجہ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔
فارماایوو کے ندیم رحمت کے مطابق دنیا بھر میں فارما مارکیٹ 2030 تک 1.5 کھرب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، جب کہ جنیرک (Generic) ادویات کا عالمی برآمدی حجم 600 ارب ڈالر تک ہے، جو پاکستان کیلئے ایک بہت بڑی ممکنہ مارکیٹ ہے۔
آپٹیمس کیپیٹل مینجمنٹ کی تجزیہ کار مریم پالیکر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان کی دوا ساز کمپنیاں ایشیا اور افریقہ کی کم ضابطہ شدہ مارکیٹوں میں برآمد کرتی ہیں، جو ان کی کل آمدنی کا 5 سے 7 فیصد حصہ بنتی ہے۔
ان کے مطابق چونکہ بھارت اور چین جیسی بڑی فارما قومیں تحقیق اور ترقی (R&D) پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں، اس لیے پاکستان کے پاس جنیرک مارکیٹ میں نمایاں مقام حاصل کرنے کا بہترین موقع موجود ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں بیماریوں کا بوجھ زیادہ اور آمدنی کم ہے۔