کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان ایک پرانا مندر تنازعے کی وجہ بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے فوجی کئی بار آپس میں لڑ چکے ہیں۔
یہ مندر جس کا نام ”پریاہ ویہیر“ ہے، تقریباً 900 سال پرانا ہے اور ہندو مذہب کے دیوتا شیو کے نام پر بنایا گیا تھا۔ یہ مندر ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے اور کمبوڈیا کے علاقے میں ہے، لیکن تھائی لینڈ بھی اس پر اپنا حق جتاتا ہے۔
پرانا جھگڑا، پرانی سرحدیں
یہ جھگڑا نیا نہیں۔ 1907 میں فرانسیسیوں (جو اس وقت کمبوڈیا پر حکومت کر رہے تھے) نے ایک نقشہ بنایا جس میں یہ مندر کمبوڈیا کے علاقے میں دکھایا گیا۔ تھائی لینڈ (جسے اس وقت سیام کہا جاتا تھا) نے یہ نقشہ مان لیا، لیکن بعد میں کہا کہ ہم سے غلطی ہوگئی، ہم سمجھے تھے کہ سرحد دریا یا پہاڑ کے مطابق ہوگی۔

1962 میں عالمی عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ مندر کمبوڈیا کا ہے اور تھائی لینڈ کو وہاں سے اپنی فوج ہٹانی پڑی۔ بعد میں عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ نہ صرف مندر بلکہ اس کے آس پاس کا علاقہ بھی کمبوڈیا کا ہے۔
نیا مسئلہ: ایک اور مندر پر جھگڑا
اب مسئلہ ایک اور پرانے مندر ”تا موئن تھوم“ پر کھڑا ہو گیا ہے، جو تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی سرحد پر واقع ہے۔ حال ہی میں یہاں دونوں ملکوں کی فوج کے درمیان دوبارہ فائرنگ اور جھڑپیں ہوئیں۔
تھائی لینڈ کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا نے ڈرون کے ذریعے ہماری پوزیشنز کی نگرانی کی، ہم نے بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ پھر جھڑپ شروع ہو گئی، جس میں 12 لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔
اس دوران تھائی لینڈ نے کمبوڈیا پر ایف 16 جنگی طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے بمباری بھی کی۔

لوگ کیوں ڈر رہے ہیں؟
جھڑپوں کی وجہ سے تھائی حکومت نے سرحد کے تمام راستے بند کر دیے ہیں اور وہاں رہنے والے تقریباً 40 ہزار لوگوں کو محفوظ جگہوں پر منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔
اصل وجہ کیا ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ دونوں ملک ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔ پرانی سرحدیں جو یورپی حکومتوں نے بنائی تھیں، آج بھی ان کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ کمبوڈیا کہتا ہے کہ یہ علاقے اس کے ہیں، تھائی لینڈ کہتا ہے کہ ہمارے ہیں۔
2008 میں کمبوڈیا نے اپنے پرانے مندر کو یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کروا لیا، تو تھائی لینڈ کو برا لگا اور تب بھی جھگڑے ہوئے تھے۔

مختصراً کہیں تو یہ جھگڑا پرانے مندروں اور نوآبادیاتی دور کی سرحدوں پر ہے۔ دونوں ملک ان مندروں کو اپنا سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ان کے مذہب اور تاریخ کا حصہ ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ مسئلہ بار بار لڑائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس میں عام لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔