بنگلادیش میں آج سے ایک سال قبل (5 اگست 2024) کو ایک بڑی احتجاجی تحریک کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ گیا تھا۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک نوبل انعام یافتہ محمد یونس بطور بنگلادیش کے بطور عبوری سربراہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔
بنگلادیش کے سب سے بڑے اخبار ڈیلی اسٹار کے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک میں زندہ بچ جانے والے افراد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک خصوصی دن (Celebrating July 36) کے نام سے منایا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کے تناظر میں جولائی 36 اب مزاحمت اور سیاسی آزادی کی جنگ کی علامت بن چکا ہے۔ یہ دن ان افراد کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کیا اور اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ دن بنگلہ دیش کی تاریخ کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔
گزشتہ سال کی تحریک کے دوران زخمی ہونے والے مظاہرین اور ان کے خاندان کے افراد صبح سے ہی ڈھاکہ کے مانیک میا ایوینیو پر جمع ہیں جہاں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔
شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کا ایک سال: ’بغاوت کے بعد بھی ہمیں آزادی نصیب نہ ہوسکی‘
میوزیکل سیگمنٹ دارالحکومت کے مانیک میا ایوینیو (Manik Mia Avenue) میں ڈھاکہ میں بارش کے باعث مانک میا ایونیو پر جاری تقریب شیڈول سے ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی جہاں بنگلادیشی گلوکاروں نے وطن کے لیے ملی نغمے پیش کیے۔
اس تقریب کے مہمان خصوصی بنگلادیشی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس ہیں۔
گزشتہ برس کیا ہوا تھا؟
بنگلادیش میں جولائی تا اگست 2024 کے درمیان متنازعہ سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ تحریک پر شیخ حسینہ کی حکومت کی ایما پر ریاستی اداروں نے تشدد کیا تھا۔ لڑائی جھگڑوں اور ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں کم از کم 1400 افراد مارے گئے تھے۔ یہ ’قتل عام‘ بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین انسانی حقوق کے سانحات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
’اُسے اپنے کیے کا جواب دینا ہوگا‘؛ حسینہ واجد کے خلاف تاریخی مقدمے کا آغاز
احتجاج کیوں ہوا تھا اور کوٹہ سسٹم کیا ہے؟
1971 میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تھا اور اس دوران پاکستان سے آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے بنگلہ دیشی قوم کے ہیرو کہلائے۔ ان جنگی ہیروز کے خاندانوں کو سرکاری نوکریوں بالخصوص سول سروسز میں مخصوص کوٹے سے نوازا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ لیکن 2018 میں طلبہ کے شدید احتجاج پر اس کوٹے کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔
شیخ حسینہ کی حکومت نے سال 2018 میں طلبہ کے احتجاج کے پیشِ نظر صرف فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کو منسوخ کیا تھا یعنی مکمل طور پر اسے منسوخ نہیں کیا گیا تھا۔ حکومتی فیصلے کے خلاف 2018 میں ہی عدالت میں ایک درخواست دائر ہوئی۔
اس کے بعد بنگلہ دیشی عدالت نے 5 جون 2024 کو اس درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص کوٹہ بحال کیا تھا۔ فیصلے کے اگلے ہی روز یعنی 6 جون کو طلبہ نے ڈھاکا یونیورسٹی میں احتجاجی ریلیاں نکالیں۔
بنگلادیشی طلبہ کے مطالبات کیا تھے؟
سال 2024 میں بنگلہ دیش میں ہونے والے احتجاج کے دوران طلباء نے اپنے مطالبات کی ایک فہرست تیار کی تھی۔ جن کے نکات درج ذیل ہیں۔
اس وقت کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو طلبا کے اجتماعی قتل کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور عوامی طور پر معافی مانگنی چاہیے۔
وزیرِ داخلہ اور وزیرِ ٹرانسپورٹ عوامی لیگ سے مستعفی ہوں۔
وہ پولیس افسران جو ان مقامات پر موجود تھے جہاں طلبا کو قتل کیا گیا تھا، انہیں برطرف کیا جائے۔
ڈھاکہ جہانگیر نگر اور راج شاہی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز مستعفی ہوں۔
وہ پولیس اور غنڈے جو طلبا پر حملے میں ملوث تھے اور جو حملے کی ترغیب دینے والے تھے، انہیں گرفتار کیا جائے۔
مارے گئے اور زخمی ہونے والے طلباء کے خاندانوں کو معاوضہ دیا جائے۔
عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم بنگلہ چھاترا لیگ پر پابندی لگائی جائے۔
تمام تعلیمی ادارے اور رہائشی ہالز کو دوبارہ کھولا جائے۔
احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔
طلبہ کے مذکورہ مطالبات پورے نہ ہونے پر احتجاجی تحریک کا سلسلہ جاری رہا اور اسی تحریک کے نتیجے میں عوامی لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور شیخ حسینہ 5 اگست 2024 کو بھارت فرار ہو گئیں۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی کی باضابطہ درخواست دے چکی ہے مگر اب تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔