افغانستان کے دارالحکومت کابل کی گلیوں اور تنگ و تاریک کوچوں میں سفید ٹوپیوں اور روایتی لباس میں ملبوس لڑکے جب قرآن پاک کی آیات کا ترنم سے ورد کرتے ہیں تو ایک نیا تعلیمی منظرنامہ ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ منظر ان مدارس کا ہے، جو اب افغانستان کے بگڑتے ہوئے تعلیمی نظام کے خلا کو پُر کر رہے ہیں۔
اگرچہ سرکاری اسکولز اب بھی کام کر رہے ہیں، مگر دہائیوں پر محیط جنگ، مالی وسائل کی کمی اور اساتذہ کی قلت کے باعث ان کی رسائی محدود ہو چکی ہے۔ ایسے میں والدین کی ایک بڑی تعداد نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے دینی مدارس کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔
مدارس میں طلبہ کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ
کابل کے شمال میں واقع ایک مدرسے کی مثال لیں تو صرف پانچ سال کے عرصے میں اس مدرسے میں طلبہ کی تعداد 35 سے بڑھ کر 160 ہو چکی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دینی تعلیم کے رجحان میں کس قدر تیزی آئی ہے۔
زیادہ تر مدارس میں تعلیم کا مرکز قرآن حفظ، فقہ اور عربی زبان ہوتا ہے۔ تاہم، اب چند مدارس نے محدود پیمانے پر ریاضی اور انگریزی جیسے بنیادی عصری مضامین کو بھی اپنے نصاب میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے باوجود، بیشتر مدارس قومی اور بین الاقوامی تعلیمی معیار پر پورا نہیں اُترتے، جس پر ماہرین تعلیم تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
طالبات کے لیے مواقع محدود
افغانستان میں طالبان کی حکومت کی پالیسی کے تحت ثانوی تعلیم پر پابندی کے باعث لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ تاہم، کچھ خاندان اپنی بیٹیوں کو مدارس میں داخل کرانے لگے ہیں تاکہ وہ تعلیم سے مکمل طور پر محروم نہ رہیں۔ لیکن مدارس میں بھی لڑکیوں کے لیے مواقع نہایت محدود ہیں، اور ان میں تعلیم کی وسعت، معیار اور آزادی شدید متاثر ہے۔

تشویش اور تنقید
ناقدین کا کہنا ہے کہ ان مدارس میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ سخت نظریاتی تربیت دی جاتی ہے، جو بچوں کی شخصیت اور سوچ کو محدود کر سکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر یہ رجحان اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو یہ افغانستان کے مستقبل پر گہرے اور طویل مدتی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
افغانستان میں مدارس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باوجود ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ یہ ادارے بین الاقوامی تعلیمی معیار پر پورا نہیں اُترتے۔ جدید علوم، سائنسی شعور، تنقیدی سوچ، اور تحقیق کی تربیت جیسے عناصر ان مدارس کے نصاب میں یا تو موجود ہی نہیں یا نہایت محدود سطح پر شامل ہیں۔

اس کا سب سے گہرا اثر بچوں کی ہمہ جہت ذہنی نشوونما پر پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے لیے صورتحال مزید تشویشناک ہے، کیونکہ طالبان حکومت کی جانب سے ثانوی تعلیم پر پابندی نے انہیں تعلیمی میدان سے عملاً باہر کر دیا ہے۔ اگرچہ کچھ مدارس لڑکیوں کو داخلہ دے رہے ہیں، مگر وہ بھی صرف مذہبی تعلیم تک محدود ہیں۔ نتیجتاً، افغانستان کی نصف آبادی تعلیمی ترقی کے عمل سے محروم ہو رہی ہے، جو نہ صرف انفرادی صلاحیتوں کے ضیاع کا باعث ہے بلکہ ملک کی مجموعی ترقی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔
والدین کی مجبوری یا وابستگی؟
دوسری طرف، والدین کے لیے یہ مدارس اکثر واحد آپشن ہیں، کیونکہ نہ صرف یہ مفت یا کم خرچ ہوتے ہیں بلکہ ان میں بچوں کو ایک منظم تعلیمی ماحول میسر آتا ہے، چاہے وہ صرف مذہبی تعلیم ہی کیوں نہ ہو۔
افغانستان میں تعلیمی انفراسٹرکچر کی بحالی اور تمام بچوں، بالخصوص لڑکیوں کے لیے یکساں تعلیمی مواقع کی فراہمی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ فی الحال، مدارس وہ خلا پُر کر رہے ہیں جو سرکاری نظام تعلیم پُر کرنے میں ناکام رہا ہے، مگر ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر اس رجحان کا متوازن اور شفاف حل نہ نکالا گیا تو ملک ایک جانبہ فکری ڈھانچے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
آئیے کابل، افغانستان کے مدارس کی تصاویرکے زریعے وہاں کی منظر کشی کرتے ہیں، جس کے لئے ہم اے پی نیوز کے شکر گزار ہیں۔



