اسرائیل نے غزہ پر مکمل فوجی قبضے کا اعلان کر دیا، سیکیورٹی کابینہ نے منظوری دے دی

0 minutes, 0 seconds Read

اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ پر فوجی قبضے کی منظوری دے دی، 6 ڈویژن فوج اتاری جائے گی، غزہ پر مکمل کنٹرول کے لیے 5 نکات جاری کردیے گئے، نیتن یاہو نےغزہ پر قبضہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری قرار دے دیا، دوسری جانب حماس نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کے بیانات اور اقدامات جنگ بندی مذاکرات پر شب خون ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی تیاری کریں گی، جبکہ جنگی علاقوں سے باہر موجود شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی جائے گی۔

وزیراعظم ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ غزہ پر قبضہ 5 مراحل میں کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں حماس کو غیر مسلح کرنا، دوسرے مرحلے میں تمام یرغمالیوں کی واپسی، تیسرے مرحلے میں غزہ سے ہتھیاروں کا خاتمہ، چوتھے مرحلے میں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول اور پانچویں مرحلے میں متبادل سول انتظامیہ کا قیام شامل ہے جو نہ حماس ہوگی نہ ہی فلسطینی اتھارٹی۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نےسیکیورٹی کابینہ سے منظوری سے پہلے ہی فاکس نیوز کو انٹرویو میں غزہ پر کنٹرول کے شیطانی عزائم ظاہر کردیے تھے۔ نیتن یاہو نے ایک بار پھر پرانا پروپیگنڈا دہراتے ہوئے غزہ پر قبضے کو اسرائیلیوں کی سلامتی سے جوڑا۔

اسرائیلی وزیراعظم نے فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ برقرار رکھنے کا خواہاں نہیں، بلکہ صرف ایک ”سیکیورٹی پٹی“ بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس علاقے کا انتظام کسی عرب طاقت کے حوالے کرنا چاہتا ہے، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کن ممالک کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی۔

ادھر، اسرائیلی فوجی قیادت اور حکومتی وزرا کے درمیان اس منصوبے پر اختلافات بھی سامنے آئے ہیں۔ فوجی سربراہ ایال زامیر نے اس آپریشن کے دائرہ کار کو وسعت دینے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ کابینہ کے ارکان کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ موجودہ متبادل منصوبے سے نہ تو حماس کو شکست دی جا سکتی ہے اور نہ ہی یرغمالیوں کو بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔ تاہم، منصوبے کو مکمل کابینہ سے منظور کرانا ابھی باقی ہے، جس کا اجلاس اتوار کو متوقع ہے۔

غزہ شہر، جو شمالی غزہ میں واقع ہے، محصور علاقے کا سب سے بڑا اور مرکزی شہر ہے۔ رائٹرز کے مطابق، اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں فلسطینی شہریوں کو غزہ شہر سے نکالنے اور پھر زمینی آپریشن شروع کرنے کا امکان شامل ہے۔

واضح رہے کہ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے انخلا کر کے شہریوں اور فوج کو واپس بلا لیا تھا، تاہم سرحدوں، فضائی حدود اور دیگر بنیادی سہولیات پر کنٹرول برقرار رکھا تھا۔ دائیں بازو کی جماعتیں اس فیصلے کو حماس کے اقتدار میں آنے کی وجہ قرار دیتی ہیں۔

اس سے قبل اسرائیل اور امریکہ نے اس سال کے اوائل میں مصر کی حمایت یافتہ ایک تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جس میں آزاد فلسطینی ماہرین پر مشتمل انتظامیہ کو جنگ کے بعد غزہ کا نظم و نسق سونپنے کی تجویز دی گئی تھی۔

حماس اور عرب ممالک کا ردعمل

دوسری جانب فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے نیتن یاہو کے بیان کو ”مذاکراتی عمل کے خلاف کھلی بغاوت“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کا اصل مقصد یرغمالیوں سے جان چھڑانا اور انہیں قربان کرنا ہے۔

عرب ممالک کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔ اردن کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ عرب ممالک صرف اس حل کی حمایت کریں گے جس پر فلسطینی خود متفق ہوں، اور غزہ کی سیکیورٹی ”جائز فلسطینی اداروں“ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے الجزیرہ کو انٹرویو میں کہا ہے کہ غزہ میں کسی نئی فورس کو اسرائیل کی حامی قوت سمجھا جائے گا اور اسے قابض تصور کیا جائے گا۔

یروشلم میں جنگ بندی کے حق میں مظاہرہ

ادھر یروشلم میں جمعرات کی شب اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے باہر سیکڑوں افراد نے جنگ بندی کے حق میں مظاہرہ کیا اور حکومت سے یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے حکومت کی پالیسیوں پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا۔

رائٹرز کے مطابق، اس وقت بھی غزہ میں تقریباً 50 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ زیادہ تر رہائیاں سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ہوئیں، تاہم جولائی میں ہونے والے جنگ بندی مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔

خیال رہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے 24 گھنٹوں کے دوران 100 افراد شہید جبکہ 600 کے قریب زخمی ہوگئے، امداد کے منتظر 51 افراد بھی شہدا میں شامل ہیں۔

غزہ میں امدادی اشیا کے نام پر دو روز میں صرف 92 ٹرک داخل ہوئے جبکہ روزانہ 600 ٹرکوں کی ضرورت ہے، اسرائیلی فوج نے سرحد پر کھڑے ساڑھے چھ ہزار ٹرکوں کو داخلے سے روک رکھا ہے۔

صیہونی فوج نے ایک بار پھر شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو جبری انخلا کا حکم دے دیا، غزہ میں شہدا کی مجموعی تعداد 61 ہزار 258 سے تجاوز کرگئی۔

برطانوی وزیراعظم کا غزہ میں اسرائیلی کارروائی مزید تیز کرنے کے فیصلے پر ردِ عمل

برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ کے غزہ میں کارروائی مزید تیز کرنے کے فیصلے کو غلط قرار دے دیا اور فوری طور پر اس پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔

اسٹارمر کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ تو جنگ ختم کرے گا اور نہ ہی یرغمالیوں کی رہائی میں مدد دے گا، بلکہ مزید خونریزی کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی بحران ہر روز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ آسٹریلیا نے بھی اسرائیل سے منصوبے سے باز رہنے کا مطالبہ کردیا۔

Similar Posts