امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن 15 اگست کو امریکی ریاست الاسکا میں ملاقات کریں گے، جہاں وہ یوکرین جنگ کے مستقبل پر بات چیت کریں گے۔ اس ملاقات کا اعلان صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کیا، جس کی بعد میں کریملن کے ترجمان نے بھی اس ملاقات کی تصدیق کی۔
روسی ترجمان نے کہا کہ الاسکا کا انتخاب منطقی ہے کیونکہ یہ جغرافیائی طور پر روس کے قریب ہے۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ ٹرمپ کو روس میں دوسرے اجلاس کے لیے بھی مدعو کیا گیا ہے۔
یہ اعلان ٹرمپ کے اُس اشارے کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے مطابق یوکرین کو جنگ ختم کرنے کے لیے کچھ علاقے روس کو دینا پڑ سکتے ہیں۔
جنگ بندی کا انحصار روسی صدر پر ہے، میں انسانی جانیں بچانے کی کوشش کروں گا: ٹرمپ
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ یہ علاقے ساڑھے تین سال سے جنگ کا مرکز ہیں، ہزاروں روسی اور یوکرینی مارے جا چکے ہیں، اور ممکن ہے کہ کچھ علاقے واپس لیے جائیں اور کچھ کا تبادلہ ہو تاکہ دونوں ممالک کو فائدہ ہو۔
امریکی خبر رساں ادارے ”سی بی ایس“ کے مطابق، ٹرمپ کا منصوبہ یورپی رہنماؤں کو اس بات پر راضی کرنے کا ہے کہ ایک معاہدہ طے ہو جس کے تحت روس مشرقی یوکرین کے ڈونباس خطے اور کرائمیا پر مکمل قبضہ رکھے، لیکن خیرسون اور زاپوریزیا کے وہ حصے چھوڑ دے جن پر اس کا جزوی قبضہ ہے۔ رپورٹس کے مطابق روسی صدر پوتن نے حال ہی میں ماسکو میں ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف سے ملاقات کے دوران اسی نوعیت کی تجویز دی تھی۔
تاہم یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کسی بھی ایسے معاہدے کو مسترد کرتے ہیں جس میں یوکرین اپنے علاقے سے دستبردار ہو۔
امریکی حکام کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں کہ یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی اس منصوبے کو قبول کریں گے یا نہیں، البتہ امکان ہے کہ زیلنسکی کو بھی کسی نہ کسی طرح اگلے ہفتے ہونے والی ملاقات میں شامل کیا جائے۔
روس اس وقت یوکرین کے تقریباً 20 فیصد حصے پر قابض ہے، مگر فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ دوسری جانب، یوکرینی حملے بھی روسی فوج کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
ماضی میں استنبول میں یوکرین اور روس کے درمیان تین بار براہِ راست مذاکرات ہو چکے ہیں، مگر یہ مذاکرات جنگ کے خاتمے میں ناکام رہے۔
روس کی امن کے لیے شرائط میں یوکرین کا غیرجانبدار ملک بننا، نیٹو میں شمولیت کی خواہش ترک کرنا، فوجی طاقت کم کرنا، روسی قبضے والے علاقوں سے فوج ہٹانا اور مغربی پابندیوں کا خاتمہ شامل ہے۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس تینوں ملکوں کے درمیان امن معاہدہ کرانے کا موقع موجود ہے۔
دہائیوں پرانے تنازع کا خاتمہ، ٹرمپ نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ’امن معاہدہ‘ کروا دیا
انہوں نے کہا کہ یورپی رہنما امن چاہتے ہیں، پوتن امن چاہتے ہیں اور زیلنسکی بھی امن چاہتے ہیں، اس لیے سب کو تیاری کرنی ہوگی کہ وہ کچھ نہ کچھ دستخط کریں۔
اس سے قبل ٹرمپ نے روس کو 8 اگست تک جنگ بندی پر راضی نہ ہونے کی صورت میں سخت اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دی تھی، مگر وقت قریب آتے ہی اس معاشی دباؤ کی جگہ پوتن سے براہِ راست ملاقات کی تیاریوں نے لے لی۔ جمعے کو وائٹ ہاؤس نے روس پر مزید پابندیوں کا کوئی اعلان بھی نہیں کیا۔
ٹرمپ اور پوتن کی آخری براہِ راست بات چیت فروری میں فون پر ہوئی تھی، جبکہ کسی امریکی صدر اور پوتن کی آخری ملاقات 2021 میں جنیوا میں ہوئی تھی، جب صدر جو بائیڈن نے ان سے ملاقات کی تھی۔