اسمارٹ واچز ذہنی تناؤ کا لیول غلط بتاتی ہیں؟

0 minutes, 0 seconds Read

آج کل اسمارٹ واچ صرف وقت بتانے یا قدم گننے کے لیے نہیں بلکہ ایک ذاتی معاون بن چکی ہے۔ یہ دل کی دھڑکن، نیند، اور یہاں تک کہ ذہنی دباؤ (اسٹریس) پر بھی نظر رکھتی ہے۔ مگر ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جب بات ذہنی کیفیت کو سمجھنے کی ہو، تو یہ ڈیوائسز ہمیشہ درست نہیں ہوتیں۔

یہ تحقیق ایک سائنسی جریدے ”جرنل آف سائیکوپیتھالوجی اینڈ کلینیکل سائنس“ میں شائع ہوئی۔ تحقیق میں تقریباً 800 یونیورسٹی کے طلباء شامل تھے۔ انہوں نے گارمن ویوو اسمارٹ 4 نامی اسمارٹ واچ پہنی اور وقتاً فوقتاً اپنی جذباتی کیفیت یعنی خوشی، پریشانی یا دباؤ کے بارے میں خود بتایا۔

’زمین پر پائے جانے والے کسی بھی مادے سے سخت‘: سائنسدانوں نے ’ایلین‘ ہیرا تیار کرلیا

پھر ان بیانات کا موازنہ واچ کی طرف سے ریکارڈ کیے گئے ”اسٹریس لیول“ سے کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں میں اکثر فرق پایا گیا۔ یعنی واچ جو کچھ بتا رہی تھی، وہ انسان کی اصل کیفیت سے مختلف تھا۔

تحقیق کرنے والوں نے کہا کہ زیادہ تر افراد کے لیے واچ کا اسٹریس ڈیٹا اور خود رپورٹ کردہ جذبات ایک جیسے نہیں تھے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسمارٹ واچ واقعی اسٹریس کو درست انداز میں پہچان سکتی ہے یا نہیں؟

بلیو وہیل کی پراسرار خاموشی پر سائنسدانوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

گارمن کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کی واچ دل کی دھڑکن اور اس میں تبدیلی کی بنیاد پر اسٹریس کا اندازہ لگاتی ہے اور اس کا اسکور 0 سے 100 کے درمیان ہوتا ہے۔ لیکن کمپنی خود بھی مانتی ہے کہ اسٹریس کا اندازہ لگانا اتنا آسان نہیں۔

مثال کے طور پر، سیڑھیاں چڑھنے اور عوامی تقریر کرنے دونوں سے دل کی دھڑکن بڑھ سکتی ہے، لیکن ایک جسمانی مشقت ہے جبکہ دوسرا جذباتی دباؤ۔

اسی لیے گارمن تجویز کرتا ہے کہ اسمارٹ واچ کو روزانہ، خاص طور پر نیند کے دوران، مسلسل پہننا درست نتائج کے لیے ضروری ہے۔

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسمارٹ واچ نیند کے بارے میں کافی درست معلومات دیتی ہے اور فٹنس یا دل کی دھڑکن پر نظر رکھنے کے لیے بھی کارآمد ہے۔ البتہ ”اسٹریس الرٹس“ پر مکمل بھروسا نہ کیا جائے۔

اسمارٹ واچ ایک مفید ٹول ہے، لیکن ذہنی دباؤ یا جذباتی کیفیت کو پہچاننے کے لیے صرف اس پر انحصار نہ کریں۔ اگر آپ کو مسلسل ذہنی دباؤ محسوس ہو رہا ہو تو بہتر ہے کہ کسی ڈاکٹر، تھراپسٹ یا ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں۔

ٹیکنالوجی مدد دے سکتی ہے، مگر انسان کی اصل کیفیت کو سمجھنے کے لیے اب بھی انسانی رابطہ ہی سب سے بہتر ہے۔

Similar Posts