دنیا میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی تیزرفتار ترقی جہاں کئی شعبوں میں انقلاب لا رہی ہے، وہیں اس کا اندھیرا رخ بھی سامنے آ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک ایسا ہی معاملہ سامنے آیا ہے جس نے ٹیکنالوجی، اخلاقیات اور خواتین کے تحفظ کے حوالے سے اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ اے آئی سافٹ ویئر نے ’اپنی مرضی سے‘ گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کی برہنہ ویڈیوز تیار کی ہیں۔
قانونی ماہر کلیئر مک گلین نے ایلون مسک کے اے آئی سافٹ ویئر ”گروک امیجن“ پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سافٹ ویئر دانستہ طور پر غیر قانونی اور جنسی نوعیت کی ڈیپ فیک ویڈیوز بنا رہا ہے، جن میں عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کی تصاویر اور چہرے کا استعمال کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق یہ عمل لاپرواہی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا اور جان بوجھ کر کیا گیا اقدام ہے، جو عورت دشمنی کی واضح مثال ہے۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے کسی شخص کے چہرے یا آواز کو کسی اور پر لگا کر ایسی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں جو حقیقی نظر آتی ہیں، مگر حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرتی ہے اور اب یہ عام افراد کے لیے بھی دستیاب ہوتی جا رہی ہے۔
فوٹوشاپ جیسی ایڈیٹنگ ٹیکنالوجیز کے برعکس، ڈیپ فیک میں سافٹ ویئر خود تصاویر اور ویڈیوز کے ڈیٹا سے سیکھتا ہے اور حقیقت کا گمان دینے والی ویڈیوز تخلیق کرتا ہے۔
ایلون مسک کی کمپنی ”ایکس اے آئی“ کے تحت کام کرنے والا گروک امیجن پہلے صرف ادائیگی کرنے والے صارفین کے لیے دستیاب تھا، مگر حال ہی میں اسے تمام صارفین کے لیے مفت کر دیا گیا ہے۔ اس میں ویڈیو جنریشن کے مختلف موڈز مثلاً ”نارمل“، ”فن کسٹم“ اور ”اسپائسی“ جیسے آپشنز موجود ہیں، جن سے مشکوک اور غیر اخلاقی استعمال کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔
2024 کے آغاز میں بھی ٹیلر سوئفٹ کے چہرے والی فحش ڈیپ فیک ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تھیں، جنھیں لاکھوں مرتبہ دیکھا گیا تھا۔ ان تصاویر کو ہٹانے سے پہلے ایک تصویر کو 47 ملین مرتبہ دیکھا جا چکا تھا۔ اس کے بعد کئی امریکی سیاست دانوں نے ایسے مواد کی تخلیق کو جرم قرار دینے کے لیے نئے قوانین لانے کا مطالبہ کیا تھا۔
برطانیہ میں اب فحش ڈیپ فیکس کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔ پروفیسر کلیئر مک گلین، جو اس قانون سازی کا حصہ رہی ہیں، کہتی ہیں کہ گروک امیجن جیسا پلیٹ فارم بغیر کسی فرمائش کے جنسی نوعیت کا مواد تخلیق کر رہا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ کئی اے آئی ٹیکنالوجیز میں عورت دشمنی کی سوچ کو تکنیکی شکل دی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق پلیٹ فارم ”ایکس“ (سابقہ ٹوئٹر) اور اس کی پیرنٹ کمپنی ان ویڈیوز کو روکنے میں ناکام رہی ہیں، حالانکہ وہ چاہتیں تو ایسا کر سکتی تھیں۔
رپورٹس کے مطابق گروک امیجن میں صارفین کی عمر کی تصدیق کے لیے وہ مناسب نظام موجود نہیں جو 2025 کے جولائی سے لازمی قرار دیا گیا ہے، جس سے نابالغوں کو بھی اس مواد تک رسائی کا خطرہ ہے۔ اس پر کمپنی سے وضاحت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع پر شدید بحث جاری ہے۔ کچھ صارفین کا ماننا ہے کہ اے آئی انسانیت کے لیے خطرہ بن چکی ہے، جبکہ کچھ اسے کنٹرول کے ہتھیار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا، ’یہ صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں بلکہ اخلاقی زوال کی علامت ہے۔‘
ایک اور صارف کے مطابق، ’جب سب کچھ مصنوعی لگنے لگے تو صرف وہی چیزیں قابلِ اعتبار رہ جاتی ہیں جو انسانوں سے جڑی ہوں۔‘
اے آئی پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ نسلی اور صنفی تعصبات کو فروغ دیتی ہے۔ چونکہ یہ ٹیکنالوجیز اکثر مغربی ڈیٹا پر تربیت یافتہ ہوتی ہیں، اس لیے ان میں سیاہ فام مخالف اور عورت مخالف رجحانات دیکھے گئے ہیں۔
یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگر اے آئی کو ضابطے کے بغیر ترقی دی گئی تو یہ نہ صرف شخصی آزادی بلکہ سماجی اخلاقیات کے لیے بھی سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ قانون سازی، شفافیت اور سخت نگرانی ہی اس کا مؤثر حل ہو سکتی ہے۔