دماغی یا نیوروسائنس کی دنیا میں ایک حیرت انگیز پیش رفت سامنے آئی ہے۔ امریکہ کی معروف جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک ایسا ننھا ’انسانی دماغ‘ لیبارٹری میں تیار کیا ہے جو نہ صرف دماغ کے مختلف حصوں سے جڑا ہوا ہے بلکہ اس میں بنیادی خون کی نالیاں یا بلڈ ویسلز اور فعال اعصابی سرکٹس بھی موجود ہیں، بالکل ویسے جیسے انسانی جنین کے دماغ میں ابتدائی مراحل پر بنتے ہیں۔
یہ نیا ماڈل سائنسدانوں کو آٹزم، شیزوفرینیا، الزائمر اور دیگر دماغی بیماریوں کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے، اور علاج تلاش کرنے کے امکانات کو بڑھا سکتا ہے۔
کامیابی کی تفصیل
اس منصوبے کی سربراہی ڈاکٹر اینی کَتھوریا نے کی، جو جانز ہاپکنز کے ڈپارٹمنٹ آف بایومیڈیکل انجینئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور دماغی ارتقاء یا برین ڈیولپمنٹ اور نفسیاتی بیماریوں پر تحقیق کرتی ہیں۔
زیادہ تر موجودہ برین آرگنوئیڈز ایک ہی دماغی حصے پر مشتمل ہوتے ہیں، جیسے صرف ’کارٹیکس‘ یا ’ہِنڈ برین‘۔ لیکن ڈاکٹر کَتھوریا اور ان کی ٹیم نے ایک ایسا ملٹی ریجن برین آرگنوئیڈ (MRBO) بنایا ہے جس میں دماغ کے تمام بڑے حصے موجود ہیں اور آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔
یہ کیسے بنایا گیا؟
سب سے پہلے دماغ کے مختلف حصوں کے اعصابی خلیے یا نیورل سیلز اور خون کی باریک نالیوں کی ابتدائی شکلیں الگ الگ پیٹری ڈشز میں اُگائی گئیں۔
پھر ایک خاص قسم کے ’بایولوجیکل گلو‘ سے یہ حصے آپس میں جوڑے گئے۔
وقت کے ساتھ یہ حصے آپس میں جُڑ گئے اور برقی سگنلز پیدا کرنے لگے، جیسے اصل دماغ میں ہوتا ہے۔
یہ منی برین کس حد تک اصلی دماغ جیسا ہے؟
اس آرگنوئیڈ میں دماغ کے تقریباً 80 فیصد خلیاتی اقسام موجود ہیں جو ایک 40 دن کے انسانی جنین میں پائی جاتی ہیں۔
حقیقی دماغ میں کھربوں نیورونز ہوتے ہیں، جبکہ اس ماڈل میں 60 سے 70 لاکھ نیورونز ہیں۔
اس میں ابتدائی بلڈ-برین بیریئر کی بھی تشکیل دیکھی گئی، جو دماغ کو غیر ضروری یا نقصان دہ مالیکیولز سے بچاتا ہے۔
یہ تحقیق کیوں اہم ہے؟
ڈاکٹر کَتھوریا کے مطابق، انسانی دماغ کی اندرونی ترقی کو براہِ راست دیکھنا ممکن نہیں، لیکن یہ منی برین ہمیں بیماریوں کے آغاز، ان کے پھیلاؤ اور ممکنہ علاج کو ریئل ٹائم میں جانچنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
نیورولوجیکل دواؤں کی کامیابی کی شرح فی الحال بہت کم ہے۔
عام دواؤں میں 85 فیصد سے 90 فیصد کلینیکل ٹرائلزمیں ناکام ہو جاتی ہیں۔
دماغی اور نفسیاتی امراض کی دواؤں میں یہ ناکامی کی شرح 96 فیصد تک پہنچ جاتی ہے، کیونکہ زیادہ تر تحقیق جانوروں پر ہوتی ہے جو انسانی دماغ سے کافی مختلف ہوتا ہے۔
مستقبل کے امکانات
یہ ملٹی ریجن برین آرگنائیڈ سائنسدانوں کو یہ سہولت دے گا کہ!
- دماغی امراض کے ابتدائی مراحل کا مطالعہ کر سکیں۔
- نئی دواؤں کو آزما سکیں اور دیکھ سکیں کہ آیا وہ اثر دکھا رہی ہیں یا نہیں۔
- علاج کو مریض کی مخصوص ضرورت کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
ڈاکٹر کَتھوریا کہتی ہیں، ’شیزوفرینیا، آٹزم اور الزائمر جیسے امراض پورے دماغ کو متاثر کرتے ہیں، نہ کہ صرف ایک حصے کو۔ اگر ہم سمجھ جائیں کہ ترقی کے ابتدائی مرحلے میں کہاں مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تو ہم بہتر علاج تلاش کر سکتے ہیں۔‘
یہ نیا ’ملٹی ریجن برین آرگنائیڈ‘ صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں بلکہ دماغی بیماریوں کی تحقیق اور علاج کے میدان میں ایک انقلاب ثابت ہو سکتا ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ ماڈل دواؤں کے ٹرائلز کو بہتر، سستا اور زیادہ کامیاب بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔