یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے واضح کیا ہے کہ ہم روس مزید یوکرینی علاقے پر قبضے کے بدلے جنگ بندی کی پیشکش کو قبول نہیں کر سکتے، کیونکہ ماسکو اس حاصل شدہ علاقے کو آئندہ کسی نئی جنگ کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کرے گا۔
”دی گارڈین“ کے مطابق، زیلنسکی کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے مطالبات کی حمایت نہیں کریں گے۔
ولودیمیر زیلنسکی نے امید ظاہر کی کہ ٹرمپ رواں ہفتے الاسکا میں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے دوران ایک ایماندار ثالث کا کردار ادا کریں گے۔
زیلنسکی کے مطابق، ’روس کی جانب سے جنگ بندی کی کوئی عملی تیاری نظر نہیں آتی، بلکہ اطلاعات کے مطابق مشرقی ڈونباس میں روسی تخریب کار گروہ یوکرینی دفاع کو توڑ کر تین دن میں تقریباً دس کلومیٹر آگے بڑھ گئے ہیں‘۔
انہوں نے خبردار کیا کہ روس محاذ کے تین مختلف حصوں پر نئی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
یوکرینی صدر نے الزام لگایا کہ پوتن ایک خودمختار یوکرین نہیں چاہتے اور ان کا مقصد پورے ملک پر غلبہ پانا ہے۔
زیلنسکی نے کہا کہ الاسکا میں ٹرمپ اور پوتن کی ملاقات کے بعد امریکا کی جانب سے دباؤ ڈال کر یوکرین کو ڈونباس کے اُن علاقوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا خطرناک ہوگا جن پر روس کا قبضہ نہیں ہے۔
روس کی مطلوبہ یہ زمین تقریباً 90 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور اس کا دفاعی اور اسٹریٹجک اہمیت میں مرکزی کردار ہے، کیونکہ یہ یوکرین کے بڑے شہروں کے تحفظ کے لیے مضبوط قلعہ بند علاقے کے طور پر کام کرتی ہے۔
یوکرینی صدر نے کہا کہ انہیں کوئی ایسی تجویز نہیں ملی جو اس بات کی ضمانت دے سکے کہ روس کل دوبارہ جنگ شروع نہیں کرے گا یا دنیپرو، زاپوریزیا اور خارکیف پر قبضے کی کوشش نہیں کرے گا۔
زیلنسکی کے مطابق کسی بھی زمینی معاملے کو سیکورٹی ضمانتوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے موجودہ محاذ پر جنگ بندی، جنگی قیدیوں اور لاپتہ بچوں کی واپسی ضروری ہے۔
یوکرینی صدر نے بتایا کہ وہ الاسکا سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے، تاہم امید ظاہر کی کہ مستقبل میں ٹرمپ اور پوتن کے ساتھ سہ فریقی ملاقات ممکن ہو سکے گی، اگرچہ پوتن اس وقت ان سے ملاقات پر آمادہ نہیں ہیں۔
زیلنسکی نے کہا کہ ٹرمپ ایک غیر متوقع شخصیت ہیں مگر وہ انہیں ایک دیانتدار ثالث کے طور پر دیکھتے ہیں جو کسی ایک فریق کے بجائے درمیان میں کھڑے ہیں۔
میدان جنگ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ روسی افواج نے ڈوبروپلیہ کے علاقے میں تخریب کاری اور ریکی کرنے والے گروہوں کو بھیجا ہے، جو یوکرینی دفاع میں شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ روسی پیش قدمی کو آپریشنل کامیابی قرار دینا قبل از وقت ہے، تاہم اگلے چند دن اس بات کا تعین کریں گے کہ یوکرین اس شگاف کو بھر پاتا ہے یا نہیں۔
یوکرینی فوج کے مطابق روس نے اس محاذ پر تقریباً 1 لاکھ 10 ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور وہ بھاری جانی نقصان کے باوجود مسلسل حملے کر رہے ہیں۔
زیلنسکی نے بتایا کہ صرف ایک دن میں روس کو تقریباً ایک ہزار نفوس کا جانی نقصان ہوا، جن میں 500 ہلاک اور 500 زخمی شامل ہیں، جبکہ یوکرین کا کے نقصانات 340 افراد پر مشتمل ہیں، جن میں 18 ہلاک، 243 زخمی اور 79 لاپتہ ہیں۔
سابق یوکرینی فوجی افسر بوہدان کرٹیویچ کا کہنا ہے کہ محاذ پر کمزوری اس لیے پیدا ہوئی کہ فرنٹ لائن بریگیڈز کو اضافی پیادہ فوج سے مضبوط کرنے کے بجائے نئے بھرتی شدہ فوجیوں کو حملہ آور یونٹس میں بھیج دیا گیا۔
زیلنسکی نے مزید کہا کہ روس اس موسم خزاں میں ایک نیا حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جس کے لیے تقریباً 30 ہزار فوجیوں کو شمال مشرقی شہر سومی سے تین سمتوں میں منتقل کیا گیا ہے، جن میں جنوب میں زاپوریزیا اور جنوب مشرق میں پوکروفسک و نووپاولیکا کے محاذ شامل ہیں۔