ایسٹونیا میں حال ہی میں ہونے والے ایک منفرد کنسٹرکشن فیسٹیول نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی، جہاں مشینیں صرف کام کرنے کے آلات نہیں بلکہ شیکسپیئر کے کلاسک ڈرامے ’رومیو اینڈ جولیٹ‘ کی جاندار اداکار بن گئیں۔
ایک پرانے چونا پتھر کے کھدان (quarry) کو اسٹیج میں بدلا گیا، جہاں درجنوں گاڑیاں، بشمول ریسنگ ٹرک، فائر انجن، سٹی بسیں، اور ایک دلوں سے سجی سیمنٹ مکسنگ گاڑی، شیکسپیئر کی لازوال محبت کی کہانی کو بغیر کسی مکالمے، صرف حرکات، موسیقی اور روشنیوں کے ذریعے پیش کرتی رہیں۔
دلچسپی لئے ہوئے جولیٹ کا کردار ایک سرخ فورڈ پک اپ نے نبھایا، جبکہ رومیو ایک ریلے ٹرک کی صورت میں سامنے آیا۔ ان گاڑیوں نے جذبات، رومانس، اور یہاں تک کہ شیکسپیئر کے مشہور ’بالکنی سین‘ کو اس انداز میں پیش کیا کہ شائقین حیرت میں بھی تھے اور مسکراہٹیں بھی بکھیر رہے تھے۔

دو بڑی کھدائی کرنے والی مشینیں (ایکسکیویٹرز) تلوار بازی کے ایک منظر میں آمنے سامنے آئیں، جس میں ٹیبالٹ اور مرکوشیو کے درمیان ہونے والا جان لیوا جھگڑا مشینوں کے بازوؤں کے ذریعے پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک گاڑی کو پہاڑی سے گرا دیا گیا، جس پر تماشائیوں نے بھرپور داد دی۔
شو کے بعد ایک ناظر، مایا میساتے، نے کہا، ’شروع میں لگا یہ کچھ زیادہ ہی مزاحیہ ہوگا، لیکن حقیقتاً یہ بہت شاندار اور دل کو چھو لینے والا تجربہ تھا۔‘

ایک اور تماشائی نے کہا، ’گاڑیاں اگرچہ جذبات ظاہر کرنے سے قاصر لگتی ہیں، لیکن اس پرفارمنس میں محبت اور لطافت کی کیفیت بخوبی محسوس ہوئی۔ خاص طور پر جب گاڑیاں ایک دوسرے کے قریب آئیں، ایسا لگا جیسے وہ ’چوم‘ رہی ہوں۔‘
یہ مکمل شو بغیر مکالمے کے پیش کیا گیا، مگر پس منظر میں معروف موسیقی، آتش بازی، اور مشہور گانا ’لَو فول‘ (دی کارڈیگنز) اس میں جان ڈال رہا تھا۔
ہدایتکار پاوو پئیک نے کہا، ’یہ ایک تجربہ تھا کہ آج کے دور میں شیکسپیئر کو کیسے نئے طریقے سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے جان بوجھ کر بڑی مشینوں کو نرمی اور جذبات کے ساتھ استعمال کیا، اور یہی تضاد ہی اس تخلیق کو خاص بناتا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر اس کے کلپس وائرل ہو رہے ہیں، جہاں دیکھنے والے اس تکنیکی محبت کہانی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے۔