گھنے سناٹے میں جب رات کی تاریکی خیموں پر اُترتی ہے، تب کہیں سے ایک مدھم سا نغمہ ابھرتا ہے۔ شاید یہ کسی بچے کی انگلیاں ٹوٹے پھوٹے گٹار پر رقص کر رہی ہیں یا کسی بزرگ استاد کی سانس بانسری کے سروں میں تحلیل ہو رہی ہے۔ یہ غزہ ہے … وہی غزہ جو اب ملبے، راکھ اور آنسوؤں کا مرقع بن چکا ہے، مگر جہاں موسیقی اب بھی سانس لیتی ہے اور زندگی کا ارتعاش پیدا کرتی ہے۔
کچھ تصویریں، حقائق اور آپ کو حیران کردینے والی باتیں، کہ جو غزہ کی تباہ کن صورتِ حال میں آپ کو اور بھی غم زدہ اور اداس کردیں گی، لیکن یہ حوصلوں اور امید کی بات ہے جو موت کے سناٹے میں زندگی کا ارتعاش ہے۔ آئیے جانتے ہیں یہ بےبسی کے سائے میں کون حوصلوں کی بات کر رہا ہے، یہ کون ہیں جو موت کے سناٹے میں زندگی کا ساز فضاؤں میں بکھیر رہے ہیں۔ اپنے ہونے کا یقین دلا رہا ہے اور یہ کیسا ارتعاش ہے جو ہواؤں اور فضاؤں میں گونج رہا ہے۔

سہیل خوری کی قیادت میں ایک کنزرویٹری، جو کبھی غربِ اردن کی گلیوں میں قائم ہوئی تھی، 13 سال قبل غزہ میں بھی اُبھری تھی۔ یہاں کلاسیکی اور مغربی موسیقی سے لے کر مقامی لوک دھنیں سکھائی جاتی تھیں۔ ایک وقت تھا جب یہاں سے بہترین بچے فلسطین یوتھ آرکسٹرا کے ساتھ بیرونِ ملک جاتے تھے، دنیا کو سناتے تھے کہ جنگ زدہ علاقے کے بچوں کی روحیں کس قدر بلند ہو سکتی ہیں۔

مگر 7 اکتوبر 2023 کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ جب اسرائیل نے غزہ پر جنگ مسلط کی، تو وہی ساز جو کبھی امن کا پیغام دیتے تھے، خاموش ہو گئے۔ وہ کلاس روم جن میں دھنیں گونجتی تھیں، اب کھنڈرات بن چکے ہیں۔ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ عمارت کا وجود مٹ چکا، دیواریں گر چکیں، اور وہ گرینڈ پیانو، جو کبھی بچوں کے خوابوں کی تعبیر تھا، غائب ہو چکا ہے۔

چودہ سالہ لبنی علیان، جو وائلن پر ’گرین سلیوز‘ بجاتی تھی، اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ابتدائی بمباری میں شہید ہو گئی۔ مگر لبنٰی جیسے بچوں کی یادیں اب بھی ان سازوں میں زندہ ہیں جو بچ گئے ہیں۔
خیمے کے نیچے، پلاسٹک کی چادروں کے سائے میں، کچھ بچے ساز تھامے بیٹھے ہیں۔ ان میں یوسف سعد بھی ہے، جو عرب عود بجانا سیکھ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’میری خواہش ہے کہ بچوں کو موسیقی سکھاؤں، تاکہ وہ اس تباہی میں بھی خوبصورتی دیکھ سکیں۔‘

فواد خادر، جو ان کلاسز کے منتظم ہیں، کہتے ہیں کہ بمباری میں کئی ساز تباہ ہو گئے۔ کچھ بچوں کے لیے انہوں نے پرانے خالی ڈبوں سے ہاتھ سے طبلے بنائے ہیں۔ کچھ ساز مہاجرین سے خریدے گئے ہیں۔ ایک وائلن استاد حمادہ ال خروبی کہتے ہیں، ’جب میں وائلن بجاتا ہوں، تو ایسا لگتا ہے جیسے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہوں۔‘
گزشتہ جنوری میں احمد ابو امشہ نے، جن کی بڑی داڑھی اور پراثر مسکراہٹ ہے، خیموں میں پہلی بار موسیقی کی کلاسز دوبارہ شروع کیں۔ وہ شمالی غزہ واپس لوٹے، جہاں کچھ باقی نہ بچا تھا، مگر اُن کا عزم بچا رہا۔ اب وہ ٹوٹی چھتوں کے نیچے، شیلنگ زدہ عمارتوں میں بچوں کو عود، گٹار اور بانسری سکھا رہے ہیں۔

ادھر بھوک اور تھکن بھی ساتھ ساتھ ہے۔ بیس سالہ سارہ السویریکی کہتی ہے، ’کبھی کبھی بھوک اتنی ہوتی ہے کہ چل کر کلاس تک نہیں جا سکتی۔ لیکن پھر بھی گٹار بجانے کا شوق مجھے کھینچ لاتا ہے۔‘
خدا جانے گٹار بجانے کا شوق السویریکی کو کھینچ لاتا ہے یا وہ خود کو بہلانا چاہتی ہے … بھوک سے قدم آگے بڑھانا بھی دوبھر ہے تو پھر خود کو بہلاتے ہیں اس غم کو، یہاں ہر طرف پھیلی ہوئی موت کے سایوں کو گٹار کی تاروں میں ارتعاش پیدا کرکے ان فضاؤں کو بتاتے ہیں کہ ہماری سانسوں کی ساتھ امید کا ارتعاش ہمارے ہونے کا پتہ دے رہا ہے۔

دنیا نے کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر طرف موت کے سائے بڑھا دیے ہیں۔ اسرائیل نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا۔ مگر خیموں میں بیٹھے یہ بچے جب ساز اٹھاتے ہیں، تو حقیقت چیخ چیخ کر سامنے آ جاتی ہے۔ بھوک، بمباری، بے گھری، سب کچھ ہے، مگر ایک ضد بھی ہے، ہمارا ساز گونج رہا ہے۔
اور پھر وہ نغمہ جو خیمے سے ابھرتا ہے… ’کوئی برگِ انجیر ہم میں مرجھائے گا نہیں‘
یہ صرف ایک گانا نہیں، یہ ایک قوم کی ضد ہے، ایک بچے کی امید اور ایک استاد کا خواب ہے کہ راکھ کے بیچوں بیچ زندگی کا ساز ہے۔