سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے حالیہ بیان پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ہونے والی ملاقات سے متعلق تفصیلی وضاحت جاری کی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ہفتے کو ایک پوسٹ میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ احمد شریف چوہدری کا میرے دل میں ذاتی احترام ہے، ذاتی ملاقاتوں میں وہ بہت خوش گوار ہیں مگر انہوں نے جن باتوں کی تردید کی، ان کا ذکر میرے کالم میں نہیں تھا۔ شاید انہوں نے غلط فہمی کی بنیاد پر بات کی کہ اس کالم میں میرا کوئی ذاتی فائدہ ہو سکتا ہے؟ اگر اس حوالے سے کوئی سوال اب بھی موجود ہے تو میں اس کی وضاحت کے لیے ہمیشہ حاضر ہوں۔
واضح رہے کہ صحافی سہیل وڑائچ نے 16 اگست کو جنگ اخبار میں شائع ایک کالم میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی فیلڈ مارشل عاصم منیر سے بیلجئم کے دارالحکومت برسلز میں پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔
کالم نگار کے مطابق اس ملاقات میں آرمی چیف نے ان کے سوالات کے واضح جوابات دیے۔ اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے لکھا تھا کہ سیاسی حوالے سے کیے گئے سوال پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ سیاسی مصلحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے۔
کالم نگار کا اشارہ غالباً سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب تھا، جو دو سال سے زائد عرصے سے جیل میں قید ہیں۔
تاہم فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے سہیل وڑائچ کے کالم کی اشاعت کے پانچ روز بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ آرمی چیف نے کسی صحافی کو کوئی انٹرویو نہیں دیا اور سہیل وڑائچ نے ذاتی فائدے اور تشہیر کے لیے من گھڑت باتیں لکھیں۔
فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ برسلز میں آرمی چیف نے ایک ایونٹ میں شرکت کی تھی جس میں انہوں نے نہ تو پاکستان تحریکِ انصاف کا ذکر کیا اور نہ ہی معافی کا۔ البتہ صحافی نے اس طرح کا ذکر کر کے ذاتی مفاد اور تشہیر حاصل کرنے کی کوشش کی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے مطابق صحافی نے نامناسب حرکت کی اور افسوس ہے کہ ایک سینئر صحافی نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ ان کے بقول، غیر قانونی حرکت کرنے والے کو قانون کے کٹہرے میں آنا ہو گا۔
صحافی سہیل وڑائچ نے ہفتے کو اپنی پوسٹ میں لکھا کہ احمد شریف نے مستند طور پر فرمایا کہ فیلڈ مارشل نے کوئی انٹرویو نہیں دیا، میرے پورے کالم کو دوبارہ پڑھ لیں اس میں کہیں لفظ انٹرویو استعمال ہی نہیں ہوا۔ میرے کالم کا عنوان ہی پہلی ملاقات ہے نہ کچھ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔
انہوں نے وضاحتی پوسٹ میں لکھا کہ میں نے کہیں نہیں لکھا یہ ون ٹو ون ملاقات تھی۔ جس تقریب میں آٹھ سو حاضرین موجود تھے، نہ تو وہاں اور نہ ہی چند لوگوں کے سامنے کھانے پر ہونے والی گفتگو آف دی ریکارڈ تھی۔
انہوں نے یہ بھی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ نو مئی، عمران خان اور معافی کے حوالے سے بھی وہاں کوئی بات نہیں ہوئی۔ براہِ کرم اس کالم کو دوبارہ پڑھ لیں، اس میں سرے سے نو مئی، عمران خان اور ان کی معافی کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
سینئیر صحافی سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ میں نے صرف ایک فقرہ لکھا کہ سیاسی مصالحت کے حوالے سے آرمی چیف نے قرآن کی آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا، اب لوگوں اور ٹرولرز نے اس سے کیا تاثر لیا، وہ ان کی مرضی ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق گویا جن پوائنٹس کی اتنے بڑے پیمانے پر تردید کی گئی، ان کا تو ذکر فسانے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ کسی کے اپنے ذہن میں ہو تو وہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔