روس میں حالیہ برسوں میں بچوں کو فوجی تربیت دینے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے، جس میں نوجوانوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر فوجی خدمات کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ روستوف ریجن کے ”ڈان کوسک کیڈٹ اسکول“ کے بچوں نے حالیہ دنوں میں ایک سخت فوجی تربیت میں حصہ لیا، جس میں دوڑنے، رینگنے اور ہینڈ گرینیڈ پھینکنے جیسے تجربات شامل تھے۔ اس تربیت کا مقصد بچوں میں قومی جذبہ اور فوجی تیاری کا فروغ ہے، تاہم اس پر مختلف نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ بعض ناقدین اسے بچوں کی ذہنی تربیت کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ حکام کا ماننا ہے کہ یہ پروگرام حب الوطنی اور دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے اہم ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی فوجی تربیت کے تحت 83 بچوں نے ایک غیر معمولی تربیتی کیمپ میں شرکت کی، جہاں وہ نہ صرف جسمانی مشقیں کر رہے تھے بلکہ اپنے وطن کے لیے فوجی تربیت بھی حاصل کر رہے تھے۔ ان بچوں کی عمر 8 سے 17 سال کے درمیان تھی اور وہ ”ڈان کوسک کیڈٹ اسکول آف دی ایمپیرر الیگزینڈر III“ کے طلباء تھے۔
یہ تربیت دریا کے کنارے ہوئی، جہاں بچوں نے ریت اور کم گہرے پانی میں دوڑنے اور رینگنے کی مشقیں کیں۔ بعض بچے اصل اسلحہ لے کر، جبکہ کچھ نے کھلونے کے ہتھیار پکڑے تھے۔ یہ سب فوجی تربیت حاصل کرنے والے بچوں کے ایک گروپ کا حصہ تھا جس میں سابقہ فوجیوں کو بھی شامل کیا گیا تھا، جنہوں نے یوکرین جنگ میں حصہ لیا تھا۔
فوجی تربیت کی اہمیت
ان تربیتی کیمپوں کا مقصد بچوں میں قومی جذبہ پیدا کرنا اور انہیں فوجی خدمات کے لیے تیار کرنا ہے۔ ایک 8 سالہ بچے نے بتایا کہ سب سے یادگار لمحہ وہ تھا جب اس نے ہینڈ گرینیڈ پھینکے اور ڈمی گولیاں چلائیں۔ دوسرے بچوں نے کہا کہ انہیں اس تجربے سے اپنے جسمانی اور ذہنی قوت کا پتا چلا۔

ایک نوجوان نے کہا، ’میں یہاں اس لیے ہوں کہ میں اپنی مستقبل کی زندگی فوج میں گزارنا چاہتا ہوں اور اپنے وطن کے لیے وفادار رہنا چاہتا ہوں۔‘
مخالف آوازیں
اگرچہ یہ تربیتی کیمپ فوجی تیار کرنے کا ایک طریقہ بن چکا ہے، لیکن بچوں کے حقوق کی تنظیم ’نی نورما‘ نے اس پر تنقید کی ہے۔ ان کے مطابق، اس طرح کی تربیت بچوں کو جنگ اور اس کے اثرات کے بارے میں شعور دینے کی بجائے انہیں پروپیگنڈہ اور نظریاتی تربیت فراہم کرتی ہے۔ تاہم، روسی حکام کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام بچوں میں صحت مند حب الوطنی اور قومی لچک کو فروغ دیتا ہے۔
انسٹرکٹر کی رائے
تربیت میں شامل ایک انسٹرکٹر، الیگزینڈر شاپن نے کہا کہ یہ تجربہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی قوت کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے اور ان میں ٹیم ورک کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ شاپن نے خود یوکرین جنگ میں حصہ لیا اور اس تربیت کو اپنے تجربات شیئر کرنے کا موقع سمجھا۔
یہ کیمپ بچوں کے لیے ایک نئے تجربے کی طرح تھا جس سے نہ صرف انہوں نے جسمانی حدوں کا مقابلہ کیا بلکہ اپنے اندر کی قوت اور عزم کا بھی اندازہ لگایا۔
اگرچہ کچھ حلقے اسے بچوں کے لیے ذہنی دباؤ اور پروپیگنڈہ سمجھتے ہیں، روسی حکام اس تربیتی پروگرام کو اپنے قومی دفاع اور فوجی تیاری کا حصہ سمجھتے ہیں۔