آج ہم آپ کو پہلی جنگِ عظیم کی ایک ایسی سچی کہانی بتانے جا رہے ہیں جس میں ایک عام سا لیموں دشمن کے لیے موت کا پیغام بن گیا۔ آپ جان پائیں گے کہ کس طرح ایک جرمن جاسوس نے لیموں کے رس کو خفیہ ہتھیار بنایا اور آخرکار اسی لیموں نے اسے بے نقاب کر کے انجام تک پہنچا دیا۔
پہلی جنگِ عظیم کے دوران دشمنوں کو پکڑنے کے لیے جدید ہتھیار اور خفیہ حربے استعمال کیے جا رہے تھے، مگر ایک جرمن جاسوس کے انجام کی وجہ نہ توپ تھی نہ بندوق، بلکہ ایک سادہ سا لیموں۔ یہ دلچسپ اور حیران کن واقعہ اس وقت کا ہے جب برطانیہ میں ایک ’لیموں‘ نے دشمن کے سب سے چالاک ایجنٹ کو بے نقاب کیا۔
پہلی جنگِ عظیم اپنے عروج پر تھی۔ فضاؤں میں خوف اور سازشوں کا راج تھا۔ برطانیہ کے ساحلوں سے لے کر اس کے چھوٹے چھوٹے قصبوں تک، ہر جگہ یہ خدشہ موجود تھا کہ کہیں کوئی دشمن خفیہ نظریں نہ جمائے بیٹھا ہو۔
برطانیہ کی نیشنل آرکائیو کے مطابق پہلی جنگِ عظیم کا دور تھا، انہی دنوں ایک اجنبی شخص، بڑی بڑی مونچھوں اور جعلی کاغذات کے ساتھ برطانیہ میں داخل ہوا۔ اس کا نام تھا کارل ملر۔ یہ بات ہے جنوری 1915 کی۔ اس نے خود کو روسی شپ بروکر اور بیلجیم سے آیا ہوا ایک بے گھر پناہ گزین کے تعارف کے ساتھ پیش کیا تھا۔ لیکن حقیقت میں، وہ جرمن انٹیلیجنس کا ایک خفیہ ایجنٹ تھا۔ اس کا مشن، برطانوی فوجی نقل و حرکت کی خبر جرمنی تک پہنچانا تھا۔

لیموں کا ہتھیار
ملر کے پاس نہ کوئی بم تھا، نہ پستول۔ اس نے اپنی جنگی چالاکی کے لیے ایک انوکھا ہتھیار چُنا، اور وہ تھا لیموں کا رس۔
جی ہاں اس نے جاسوسی کے لیے لیموں کے رس کو اپنا ہتھیار بنایا۔ وہ قلم کی نوک سے لیموں کا رس نکالتا اور اس سے خطوط کے درمیان ’خفیہ پیغام‘ لکھ دیتا۔ یہ تحریر عام حالات میں نظر نہیں آتی تھی، لیکن جب خط کو آگ کے سامنے کیا جاتا تو الفاظ نمایاں ہو جاتے تھے۔ اسے ایک ’انویزیبل اِنک‘ کہا جاسکتا ہے، اور اس طرح خفیہ پیغام پہنچایا جاتا تھا۔
یعنی ایک عام سا خط، بظاہر گھریلو باتوں سے بھرا ہوا ہوتا، لیکن درحقیقت فوجی قافلوں، بندرگاہوں اور فوجی مشقوں کی تفصیلات چھپائے ہوتا تھا۔

قسمت ہمیشہ ساتھ نہیں دیتی۔ برطانیہ کی پوسٹل سینسرشپ ٹیم پہلے ہی مشکوک خطوط پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ ایک دن ایک خط ان کے ہاتھ لگا جو ہالینڈ کے ایک بڑے شہر روٹرڈیم کے ایک پوسٹ باکس کے نام پر بھیجا گیا تھا۔ افسران نے اسے جانچنے کے لیے حرارت دی اور کاغذ پر الفاظ ابھر آئے،
’ایپسَم میں فوجی مشقیں… فوجی جہاز جنوبی بندرگاہ سے روانہ…‘
یہ سیدھی دشمن کے ہاتھ جانے والی قیمتی معلومات تھیں۔
تحقیقات کا دھاگہ جان ہان نامی ایک بیکر تک جا پہنچا، جو لندن کے جنوب مشرقی حصے میں دریائے ٹیمز کے کنارے ڈیپٹ فورڈ کا رہائشی اور جرمن نژاد تھا۔ اس کے گھر کی تلاشی میں ایک لیموں ملا جس پر قلم کی نوک کے نشانات تھے۔ کاغذات پر بھی خفیہ تحریر کے آثار تھے۔
اور مزید معلومات کے بعد یہ سرا سیدھا کارل ملر تک پہنچا۔ جب اس کے کمرے کی تلاشی لی گئی تو منظر حیران کن تھا، اس کے اوور کوٹ کی جیب میں ایک لیموں، اور دراز میں دوسرا لیموں، کاٹ کر روئی میں لپیٹا ہوا رکھا تھا۔

جب اس سے پوچھا گیا، ’یہ لیموں کیوں رکھے ہیں؟‘ تو ملر نے بے تاثر لہجے میں کہا، ’دانت صاف کرنے کے لیے…‘
لیکن یہ بات کسی طرح بھی قالِ قبول نہیں تھی اورکوئی بھی اس جواب پر یقین کرنے والا نہ تھا۔
فرانزک ماہرین نے اس کے قلم پر لیموں کے خلیوں کے ذرات تلاش کر لیے۔ اب جرم واضح تھا۔
جون 1915 میں مقدمہ خفیہ طور پر اولڈ بیلی میں چلا۔ جان ہان کو سات سال قید کی سزا ملی، اور کارل ملر کو جاسوسی کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔
23 جون 1915 کی صبح، لندن کے ٹاور آف لندن میں فائرنگ اسکواڈ تیار کھڑا تھا۔ ملر نے ایک ایک سپاہی سے ہاتھ ملایا، خود کو پرسکون دکھایا اور آنکھوں پر پٹی باندھ لی۔ لمحہ بھر بعد گولیوں کی آواز گونجی اور اس کی کہانی ختم ہو گئی۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔
ملر کی پھانسی کے بعد بھی برطانیہ کی خفیہ ایجنسی MI5 نے اس کے نام سے جرمنی کو جھوٹے پیغامات بھیجنے شروع کر دیے۔ برلن کو یقین رہا کہ ان کا جاسوس ابھی زندہ ہے اور سرگرم ہے۔ بدلے میں پیسے بھی آتے رہے، دلچسپ بات یہ کہ انہی پیسوں سے برطانوی اہلکاروں نے ایک گاڑی خریدی، دو نشستوں والی مورس کار۔ انہوں نے اس کا نام طنزیہ انداز میں رکھا، ’دی ملر‘۔
یہ گاڑی بعد میں برطانوی جاسوسوں کے مشنز میں استعمال ہوئی، اور ہر بار ان کے لبوں پر ایک مسکراہٹ چھوڑ گئی، ’یہی ہے لیموں کی سزا۔‘
یوں ایک عام سا لیموں، جو عام زندگی میں محض ذائقہ بڑھاتا ہے، پہلی جنگِ عظیم میں ایک جاسوس کی جان لے بیٹھا۔ جنگ ہو یا امن کبھی کبھی بہت معمولی بات یا چھوٹی چیز بھی سب سے بڑا راز کھول دیتی ہے۔