اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینئر اینکر پرسن اور صحافی ارشد شریف قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست نمٹا دی ہے۔
جمعے کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے ارشد شریف قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستیں نمٹائی ہیں۔
یاد رہے کہ مقتول ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق اور سینئر صحافی حامد میر نے درخواستیں دائر کی تھیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ معاملہ از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے، عدالت میں زیر التوا ہونے کی وجہ سے کیس میں کوئی حکم نہیں دے رہے، سپریم کورٹ میں معاملہ ہونے کے باوجود جوڈیشل کمیشن کے قیام کی ڈائریکشن جاری کرنا اعلیٰ عدالت کے دائرہ اختیارمیں مداخلت ہوگا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ درخواست گزار یہ معاملہ براہ راست سپریم کورٹ کے سامنے اٹھاسکتے ہیں، حکومت سمیت تمام فریقین کو کیس سے آگاہ رکھیں۔ ریکارڈ کے مطابق سپریم کورٹ نے ارشد شریف کے اکتوبر 2022 میں قتل پر 6 دسمبر 2022 کو از خود نوٹس لیا، وفاقی حکومت نے 7 دسمبر 2022 سپیشل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق وفاقی حکومت نے کینیا کے ساتھ باہمی قانونی معاونت کے لیے ایم ایل اے پت دستخط کیے، جس پر سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کو کینیا میں تفتیشی کام کرنے کی اجازت ملی، سپریم کورٹ نے شفاف انکوائری کے لیے سوالات فریم کیے اور انوسٹی گیشن میں پیش رفت کو جائزہ لے رہی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے تحریری آرڈر سے متعلقہ پیرا گراف کو بھی عدالتی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے، سپریم کورٹ نے سوال پوچھا کہ ارشد شریف کے پاکستان چھوڑنے کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کو کہا وہ دیکھے کہ دبئی حکومت نے ارشد شریف کو ملک چھوڑنے کا حکم کیوں دیا؟ سپریم کورٹ نے فیئر اینڈ ٹرانسپیرنٹ انکوائری کے لیے ہدایات جاری رکھی ہیں۔
ارشد شریف قتل کیس
ارشد شریف اگست 2022 میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد وہ کینیا چلے گئے جہاں انہیں اکتوبر 2022 میں قتل کردیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا تھا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیراملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔
اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔
کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔
لیکن بعدازاں پاکستانی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم نے کہا تھا کہ ارشد شریف کی موت منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا قتل تھا۔
ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے کینیا پولیس یونٹ کے خلاف وہاں کی مقامی عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
کینیا کی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف نیروبی کے باہر پولیس چیک پوسٹ پر نہیں رکے تھے لیکن ان کے اہل خانہ اور پاکستانی تفتیش کاروں نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا منصوبہ پاکستان میں بنایا گیا تھا۔