پارلیمانی پبلک اکاؤونٹس کمیٹی (پی اے سی) نے بیرون ممالک پی ایچ ڈی اسکالر شپس پر جانے والے ڈیفالٹرز کی تفصیلات طلب کرلی، کمیٹی نے فل برائٹ اسکالر شپس ملنے کے باوجود کینسل کرانے کی وجوہات بھی ایک ہفتے میں پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
پی اے سی کا اجلاس چیرمین جنید اکبر خان کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، اجلاس میں کمیٹی اراکین کے علاوہ چیرمین ایچ ای سی سمیت اڈیٹر جنرل پاکستان اور مختلف یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلرز نے شرکت کی۔
اجلاس میں ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے مالی سال 2023-24 کے آڈٹ پیراز پر غور کیا گیا، اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ چیئرمین ایچ ای سی کہاں ہیں، میرے پاس بہت شکایات ہیں کہ یونیورسٹیز کے پروفیسر طالبات کو بلیک میل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیز نے پروفیسرز کو امتحانی پرچہ، پیپر چیکنگ اور نمبر لگانے کے مکمل اختیارات دے دیے ہیں، جس پر ڈائریکٹر ایچ ای سی نے کہاکہ وائس چانسلر کانفرنس میں امتحانات کا سلسلہ بہتر بنانے پر غور ہو رہا ہے، اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر چیئرمین ایچ ای سی ہوتے تو ہمیں جواب دیتے۔
اجلاس میں یونیورسٹی آف گلگت بلستان کے لیے پی سی ون سے پہلے فزیبلٹی سٹڈی نہ ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے آڈٹ حکام نے بتایا کہ پی سی ون کی فزیبلٹی سٹڈی کے بغیر منظوری سے 4 ارب 20 کروڑ کا نقصان ہوا اور یونیورسٹی انتظامیہ نے قواعد کی خلاف ورزی کے لیے ہوئے 3 عمارتیں کرائے پر لی اور عمارتوں کے کرائے اور تنخواہیں پی ایس ڈی پی فنڈ سے ادا کی جاتی رہیں، جس پر رکن کمیٹی حنا ربانی کھر نے کہا کہ اگر دس لوگوں کے ساتھ بھی بزنس چلائیں گے تو تنخواہیں تو دینی ہوتی ہیں اگر تین تین ماہ تنخواہیں نہ مل رہی ہوں تو یونیورسٹی انتظامیہ کیا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیاں ملک کیلئے ایک نرسری کا کردار ادا کرتیں ہیں مانا کہ پی ایس ڈی پی فنڈز سے تنخواہیں ادا نہیں کی جانی چاہئیں، لیکن تنخواہوں کے لیے فنڈز جاری نہیں کیے جائیں گے تو تنخواہیں کیسے ملیں گی۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ تنخواہوں اور پینشن کے حوالے سے تو فنڈز پہلے جاری کیے جانے چاہئیں، کمیٹی نے معاملے کو مؤخر کردیا۔
اجلاس کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ قائداعظم یونیورسٹی نے بلڈنگ کی تعمیر سے قبل سی ڈی اے سے منظوری نہیں لی تھی، جس پر قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بتایا کہ یونیورسٹی کے کئی بلڈنگز کی بھی منظوری نہیں لی گئی ہے، آڈٹ کے اعتراضات پر سی ڈی اے سے رابطہ کیا اور ہم ایک ہفتے میں یہ معاملہ حل کر لیں گے۔
کمیٹی نے جلد از جلد معاملہ حل کرانے کی ہدایت کی۔ رکن کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے استسفار کیا کہ سی ڈی اے کے ساتھ زمین کے تنازعے کا مسئلہ حل ہوگیا ہے یا نہیں، جس پر وائس چانسلر نے بتایا کہ ابھی تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔
کمیٹی نے سی ڈی اے حکام کو قائد اعظم یونیورسٹی کے تمام معاملات حل کرنے کی ہدایت کی۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ سیکٹر ایچ الیون ٹو میں ائیر یونیورسٹی کی تعمیر کا ٹھیکہ شفاف طریقے سے نہیں کیا گیا، جس پر حکام نے بتایا کہ پری کولیفکیشن میں تبدیلی کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
اس موقع پر ایئر یونیورسٹی کے حکام نے بتایا کہ معاملے کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ ابھی تک نہیں ملی ہے، جس پر کمیٹی نے معاملہ دوبارہ ڈی اے سی کو بھجوا دیا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ نسٹ یونیورسٹی کے تعمیراتی منصوبوں کو مکمل نہیں کیا گیا اور انتظامیہ نے ٹھیکیداروں کو بلیک لسٹ نہیں کیا، جس پر حکام نے بتایا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور ہم انشورنس کمپنی سمیت ٹھیکدار کے خلاف عدالت میں گئے ہیں، ہم نے انشورنس کمپنی اور ٹھیکیدار کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے ایچ ای سی اور پی ای سی کو بھی خطوط لکھے ہیں جبکہ کمیٹی نے معاملے کو مؤخر کردیا۔
حکام نے بتایا کہ اسلامک یونیورسٹی نے بغیر ٹینڈر کے تعمیراتی منصوبے میں پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس پر حکام نے بتایا کہ اس میں پی ای سی کے قوانین پر عمل درآمد کیا گیا ہے کمیٹی نے معاملہ دوبارہ ڈی اے سی کو بھجوا دیا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ ایئر یونیورسٹی کے ایڈمن بلاک کی تعمیر میںڈیزائن میں تبدیلی کی گئی اور 2 کروڑ سے زائد کے اضافی اخراجات کیے گئے جس پر حکام نے بتایا کہ منصوبے میں تاخیر کے بعد کنسلٹنٹ کی سفارش پر تبدیلی کی گئی کمیٹی نے معاملے کو نمٹا دیا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ ایچ ای سی نے مختلف یونیورسٹیز کے طلباء کو اسکالر شپس فراہم کیے مگر ان میں 96 افراد واپس نہیں آئے، جس پر حکام نے بتایا کہ اس میں 50 فیصد کی ریکوری ہوچکی ہے اور مزید وصولیوں کی کوشش کر رہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی جنید اکبر نے کہا کہ جنہوں نے ادائیگی نہیں کی ہے ان کے خلاف ایف آئی آرز کرائیں، رکن کمیٹی سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ فلبرائیٹ اسکالر شپس میں 90 فیصد کنیسل ہوجاتی ہیں جو ڈیفالٹرز ہیں ان کے نام اخبارات میں شائع کیے جائیں۔
کمیٹی نے اس حوالے سے کیے جانے والے تمام اقدامات کی تفصیلات اور سفارشات 2 ہفتوں میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔