وسطی لندن میں ہفتے کو 1 لاکھ سے زائد مظاہرین نے برطانیہ میں دائیں بازو کے رہنما ٹومی رابنسن کے زیرِ اہتمام ”یونائیٹ دی کنگڈم“ مارچ کیا جسے لندن کا اب تک کا سب بڑا مظاہرہ قرار دیا گیا ہے۔
احتجاج کے دوران ہزاروں مظاہرین برطانیہ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے جس دوران پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی پیش آئیں۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق ”یونائیٹ دی کنگڈم“ مارچ میں تقریباً 1 لاکھ افراد شریک ہوئے، جنہیں ”اسٹینڈ اپ ٹو ریسزم“ کے 5 ہزار افراد پر مشتمل مخالف مظاہرے سے علیحدہ رکھا گیا تھا۔
اسٹینڈ اپ ٹو ریسزم کے زیر اہتمام مخالف مظاہرے میں نسلی امتیاز کے خلاف نعرے لگائے اور اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ ہر شخص کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے۔

آزاد پارلیمنٹری رکن ڈایان ایبٹ نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ”ہم جانتے ہیں کہ نسل پرستی، تشدد اور فاشزم نیا نہیں ہے، مگر ہم ہمیشہ ان کو شکست دیتے ہیں۔“
پولیس کے مطابق یہ مارچ اتنے بڑے پیمانے پر تھا کہ وائٹ ہال کی کشادہ سڑک، جو حکومت کی عمارات سے گھری ہوئی ہے اور جسے مارچ کے لئے منظور شدہ روٹ قرار دیا گیا تھا، میں اتنی بڑی تعداد کے مظاہرین کے لیے جگہ نہیں بن سکی تھی۔
اس موقع پر امن و امان قائم رکھنے کیلئے تقریباً 1600 پولیس افسران ڈیوٹی پر تعینات تھے، جبکہ پولیس اور دائیں بازو کے مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئیں۔

پولیس کے مطابق جھڑپوں کے دوران 26 اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے 4 کی حالت تشویش ناک تھی۔ مجموعی طور پر 25 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر میٹ ٹوسٹ نے کہا کہ، “ہم ان افراد کی شناخت کر رہے ہیں جو بدامنی میں ملوث تھے اور وہ آنے والے دنوں میں پولیس کے سخت اقدامات کا سامنا کریں گے۔
برطانیہ میں دائیں بازو کے رہنما ٹومی رابنسن نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ”آج کا دن برطانیہ میں ثقافتی انقلاب کی چمک ہے، یہ ہمارے لیے بہترین لمحہ ہے۔“

ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک نے بھی رابنسن اور دیگر دائیں بازو کے رہنماؤں کی حمایت میں برطانوی حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ مسک نے کہا کہ برطانوی عوام کو اپنی آزاد تقریر کا استعمال کرنے سے ڈرایا جا رہا ہے۔
ٹومی رابنسن کا اصل نام اسٹیفن یاگلی لینن ہے، جو خود کو ایک صحافی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ریاست کی غلطیوں کو بے نقان کرنے کے منصوبے پر کام کرتے ہیں۔

ٹومی رابنسن نے خطاب میں سیاستدانوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے خیالات کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی عدالتوں نے غیر دستاویزی پناہ گزینوں کے حقوق کو مقامی کمیونٹی کے حقوق پر ترجیح دی ہے۔
ٹومی رابنسن کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ اپیل کورٹ نے ایپنگ، ایسیکس کے بیل ہوٹل میں پناہ گزینوں کو رہائش فراہم کرنے کے حوالے سے ایک حکم کو مسترد کر دیا تھا۔
احتجاج کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں دوبارہ ایسے احتجاج کا انعقاد کریں گے۔ 42 سالہ رابرٹسن اس سال کے آغاز میں جیل سے رہا ہوئے تھے، جہاں انہیں اکتوبر میں ایک شامی پناہ گزین کے بارے میں جھوٹے دعوے کرنے پر سزا دی گئی تھی، جس نے ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ جیتا تھا۔