سعودی عرب اور پاکستان نے 17 ستمبر 2025 کو ریاض میں ’اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کیے ہیں۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق معاہدے میں کہا گیا کہ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا۔
یہ معاہدہ دونوں ممالک کے دیرینہ دفاعی تعاون کو پہلی مرتبہ باضابطہ اور معاہداتی حیثیت فراہم کرتا ہے۔
صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے اس معاہدے کو اسرائیل اور بھارت کے لیے ’تزویراتی چیلنج‘ قرار دیتے ہوئے اسے زیادہ تر سیاسی اشارہ قرار دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سعودی عرب نے ماضی میں پاکستان کی جنگوں میں صرف مالی اور سفارتی مدد دی اور ’کشمیر میں دہشت گردی کی سرپرستی‘ کا دفاع نہیں کیا۔ یہ مؤقف دراصل وہی بھارتی اور اسرائیلی بیانیہ ہے جو پاکستان کے خلاف عرصۂ دراز سے پیش کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے دوحہ پر حالیہ حملے اور امریکی کردار کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ باضابطہ معاہدہ کر کے ایران، اسرائیل اور امریکا کو پیغام دیا ہے کہ اس کے پاس متبادل دفاعی آپشنز موجود ہیں۔
صیہونی جریدے کی خبر میں دعویٰ کیا گیا کہ اس معاہدے سے بھارت کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور پاکستان ’سعودی پشت پناہی‘ کے تاثر سے فائدہ اٹھائے گا۔ مزید کہا گیا کہ بھارت کے جوابی اقدامات، جیسے ’آپریشن سندور‘، اب سعودی عرب کے دفاع پر حملہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔
یہ مؤقف پاکستان کے دفاعی تعلقات کو براہ راست بھارت مخالف زاویے سے جوڑنے کی کوشش ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اسرائیل کا کھلا مخالف ہے اور اب خود کو عرب ریاستوں کے لیے ’جوہری ڈھال‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ خفیہ روابط رکھے ہوئے ہے اور مستقبل میں تعلقات ممکن ہیں۔
اس طرح ایک طرف پاکستان کو خطرہ بنا کر پیش کیا گیا اور دوسری جانب سعودی عرب کو اسرائیل سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
پاکستان کے نقطۂ نظر سے یہ معاہدہ دہائیوں پر محیط سعودی عرب اور پاکستان تعاون کا تسلسل ہے اور اس بار اسے باضابطہ معاہدے کی حیثیت دی گئی ہے۔
صیہونی میڈیا اس کو زیادہ تر بھارت اور اسرائیل کے مفاد کے تناظر میں دیکھ کر پاکستان کو منفی رنگ میں دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں پاک سعودی تعلقات کی گہری تزویراتی اہمیت اور باہمی اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔