کمیٹی اجلاس کی صدارت سینیٹر پلوشہ خان کر رہی تھیں، جنہوں نے معاملے کو “قومی سلامتی اور عوامی اعتماد” کامسئلہ قرار دیا۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے چیئرمین نے انکشاف کیا کہ متاثرہ افراد میں 2026 کے حج کیلیے درخواست دینے والے شہری بھی شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ تحقیقات جاری ہیں تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ یہ نیا ڈیٹا لیک ہے یا 2022 کے لیک سے منسلک ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ حج درخواست گزاروں کے علاوہ سم کارڈ صارفین کا ڈیٹا بھی متاثر ہوا ہے۔کمیٹی اراکین نے حکومت کی جانب سے طویل عرصے سے زیر التوا ڈیٹا پروٹیکشن بل پر عدم پیش رفت پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ “قانون جو اس ڈیٹا چوری کو روک سکتا ہے، وہی قانون ہمیں منظور نہیں کرنے دیا جا رہا ہے ۔”کمیٹی چیئرپرسن نے نیشنل سائبرکرائم ایجنسی (این سی سی اے) کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اتنی بڑی ذمہ داری نئی ایجنسی کو کیسے دی جا سکتی ہے؟
چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے این سی سی اے کو تحقیقات کی قیادت سونپی ہے۔کمیٹی کے اراکین نے الیکشن کمیشن اور نادرا کے ڈیٹا کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے خبردار کیا کہ ماضی میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران ڈیٹا کا استعمال اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر کیا گیا تھا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار کا انضمام آخری مراحل میں ہے اور ایک سے دو ہفتوں میں مکمل ہو جائیگا۔
5G اسپیکٹرم نیلامی پر گفتگو کے دوران پی ٹی اے نے تکنیکی تیاری کی تصدیق کی، لیکن قانونی رکاوٹوں کا ذکر کیا۔کمیٹی نے Jazz کی جانب سے صارفین سے مبینہ طور پر 6 ارب روپے کی وصولی کے اسکینڈل کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سپردکر دیا۔
آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ Jazz نے مختلف پیکجز کی قیمتوں میں اضافہ کرکے صارفین سے بھاری رقوم وصول کیں۔کمیٹی نے موبائل نیٹ ورکس کی ناقص کارکردگی پر بھی تشویش کا اظہارکیا۔