امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اچانک ایچ ون بی ویزا کی فیس ایک لاکھ ڈالر مقرر کرنے کے فیصلے نے نہ صرف پالیسی سازی کے حوالے سے سخت تنقید کو جنم دیا ہے، بلکہ ماہرین کے نزدیک یہ براہ راست چین کے لیے ایک ”تحفہ“ ثابت ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا جہاں ”میک امریکا گریٹ اگین“ (MAGA) کے نعرے کے تحت عالمی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کو اپنے ملک سے دور دھکیل رہا ہے، وہیں بیجنگ اپنی نئی کے ویزا اسکیم کے ذریعے دنیا بھر کے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریسرچ ماہرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہہ رہا ہے۔
امریکا طویل عرصے تک عالمی سطح پر ٹیلنٹ کا مرکز رہا ہے، دنیا بھر سے آئے انجینئرز اور سائنس دانوں نے امریکی جامعات اور تحقیقی اداروں میں خدمات انجام دے کر ٹیکنالوجی میں نئی انقلابی جدتیں متعارف کروائیں۔
لیکن اب اچانک ایک لاکھ ڈالر کی بھاری ویزا فیس نے دنیا کے بہترین دماغوں کو واشنگٹن کے بجائے بیجنگ کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ماہرین اسے محض بدانتظامی نہیں بلکہ امریکا کی اپنی اپنے ہاتھوں ”اسٹریٹیجک خودکشی“ قرار دے رہے ہیں۔
چین کی جانب سے یکم اکتوبر سے ”کے ویزا“ (K-VISA) متعارف کرایا جا رہا ہے، جو عالمی سائنس و ٹیکنالوجی ماہرین کے لیے آگے بڑھنے کا تیز ترین اور آسان راستہ فراہم کرے گا۔
اس ویزے کے تحت نہ صرف اسپانسر شپ کی ضرورت ختم ہوجائے گی، بلکہ اس کے ساتھ تحقیقی کام، کاروباری مواقع اور تعلیمی تعاون کے لیے خصوصی ترغیبات بھی دی جا رہی ہیں۔ یہ اقدام اچانک نہیں بلکہ چین کی دہائیوں پر محیط حکمت عملی کا حصہ ہے۔
چین کا مشہور ”تھاؤزنڈ ٹیلنٹس پلان“ اسی پالیسی کی نمایاں مثال رہا ہے جس کے تحت امریکا اور یورپ کی صفِ اول کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے والے ماہرین کو دوبارہ چین واپس بلا کر ان کی مہارتیں اور ٹیکنالوجی مقامی صنعت کو منتقل کی گئیں۔ واشنگٹن کی آنکھوں کے سامنے بیجنگ نے امریکی ٹیکنالوجی کی نقل تیار کر کے نہ صرف اسے اپنے ملک میں وسیع پیمانے پر اپنایا بلکہ سیمی کنڈکٹرز، مصنوعی ذہانت اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں میں برتری بھی حاصل کی۔
ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی پالیسی اب ایک بار پھر چین کو براہ راست فائدہ پہنچا رہی ہے۔ جہاں بیجنگ عالمی ماہرین کو سنبھال رہا ہے وہیں امریکا اپنے ہاتھوں سے انہیں دور کر رہا ہے۔ یوں دنیا کے بہترین سائنسدان اور انجینئر اب چین کا رخ کر کے اسے مزید طاقتور بنا سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی نئی ویزا پالیسیوں نے بھارت کو بھی دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ امریکا میں انجینئیروں اور سائنسدانوں کی بڑی تعداد بھارت سے تعلق رکھتی ہے، جو اب کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ان ماہرین کے سامنے ”کے ویزا“ کا راستہ موجود ہے، لیکن بھارت اور چین کے درمیان تنازع کے باعث یہ موقع سیاست کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے۔