یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب خطے کی صورتحال شدید کشیدگی کا شکار ہے اور 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی بمباری میں 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ بھی غزہ کے شمالی علاقے میں قحط کی تصدیق کرچکا ہے جب کہ قطر میں حماس رہنماؤں پر اسرائیلی حملے کے بعد سے صورت حال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔
دو ریاستی حل کا تاریخی پس منظر
دو ریاستی حل کا تصور اقوام متحدہ کے قیام سے قبل موجود تھا۔ 1947 میں برطانیہ نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کے سامنے رکھا۔
اس تنازع کے حل کے لیے ایک فلسطینی عرب ریاست اور ایک یہودی ریاست کے قیام کے ساتھ یروشلم کو بین الاقوامی حیثیت دینے کی تجویز دی گئی۔
بعد ازاں 1991 میں میڈرڈ امن کانفرنس اور بعد ازاں 1993 کے اوسلو معاہدے نے فلسطینی خودمختار اتھارٹی کی بنیاد رکھی۔
جس کے بعد 2000 میں کیمپ ڈیوڈ اور 2001 میں طابا مذاکرات بھی کوئی مثبت اور حتمی نتائج دیئے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔
اسرائیلی جارحیت اور ہٹ دھرمی پر امریکا اور متعدد مغربی ممالک کی حمایت کے باعث مسئلہ فلسطین آج تین دہائیوں بعد بھی حل طلب ہے۔
تاہم اب اسرائیل اپنے اتحادی مغربی ممالک کی ایک ایک کرکے حمایت کھوتا جا رہا ہے جس کی تازہ مثال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 12 ستمبر کو فرانس اور سعودی عرب کی پیش کردہ نیویارک ڈیکلیریشن کا بھاری اکثریت سے منظور ہونا ہے۔
اس ڈیکلیریشن میں کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن صرف دو ریاستی حل کے تحت ہی ممکن ہے۔ جس کے بعد متعدد مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
قرارداد میں جہاں اسرائیل نے یہودی آبادکاری کے خاتمے، فوجی حملے اور خوراک کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا وہں حماس سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسلحہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرکے غزہ پر اپنا حکومتی کنٹرول بھی ختم کردے۔
اقوام متحدہ کے مطابق آج 22 ستمبر کے اجلاس کا مقصد تین دہائیوں سے جاری اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کا حل نکالنے میں مدد دینا ہے تاکہ دونوں ریاستیں 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر، یروشلم کو مشترکہ دارالحکومت بنا کر امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔