امریکا ایک بار پھر بڑے بحران میں داخل ہو گیا ہے۔ بدھ کے روز کانگریس اور وائٹ ہاؤس کے درمیان بجٹ پر کوئی معاہدہ نہ ہونے پر امریکی حکومت نے اپنے بیشتر محکمے اور ادارے بند کر دیے۔ یہ 1981 کے بعد سے امریکا میں 15واں شٹ ڈاؤن ہے، جس کے دورانیے اور اثرات اس بار کہیں زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔
آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ یہ شٹ ڈاؤن کیوں ہوا، اس کے کیا اثرات ہوں گے، اور آگے کا منظرنامہ کیا ہے۔
گورنمنٹ شٹ ڈاؤن کیا ہے؟
گورنمنٹ شٹ ڈاؤن اس وقت ہوتا ہے جب امریکی حکومت اپنے اخراجات کے لیے نیا بجٹ منظور نہ ہونے پر بہت سے محکمے بند کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
یعنی وہ سرکاری ادارے جو ”ضروری“ نہیں سمجھے جاتے، ان کا کام رک جاتا ہے۔ اس کا اثر کئی چیزوں پر پڑتا ہے جیسے سوشل سیکورٹی کے کام، ہوائی سفر میں سہولت، اور نیشنل پارکس تک رسائی وغیرہ۔
امریکا میں ہر سال حکومت کے اخراجات کے لیے کانگریس بجٹ پاس کرتی ہے اور پھر صدر اس پر دستخط کرتے ہیں۔ اگر سیاسی اختلافات کی وجہ سے بجٹ پاس نہ ہو سکے تو اداروں کے پاس اخراجات کے لیے پیسے نہیں ہوتے اور انہیں بند کرنا پڑتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہزاروں سرکاری ملازمین کام پر نہیں آتے اور انہیں تنخواہیں بھی نہیں ملتیں، جب تک کہ بجٹ کا مسئلہ حل نہ ہو جائے۔
حکومتی نظام بند کیوں ہوا؟
امریکی حکومت کے زیادہ تر محکموں کو چلانے کے لیے 1.7 ٹریلین ڈالر کے فنڈ کی ضرورت ہے، لیکن ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز اس پر متفق نہیں ہو سکے۔ ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ عوام کے لیے ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کی مدت بڑھائی جائے، جبکہ ریپبلکنز اس اضافے کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ علیحدہ حل کیا جائے۔
جب سینیٹ نے عارضی اخراجات کا بل مسترد کر دیا تو حکومت کے اداروں کے پاس فنڈز ختم ہو گئے اور شٹ ڈاؤن شروع ہو گیا۔
کس پر سب سے زیادہ اثر پڑے گا؟
اس شٹ ڈاؤن سے براہِ راست 7.5 لاکھ وفاقی ملازمین متاثر ہوں گے جنہیں عارضی طور پر گھر بھیج دیا جائے گا اور اس کا روزانہ نقصان تقریباً 400 ملین ڈالر ہوگا۔
-
فوجی اہلکار اور ایئر ٹریفک کنٹرولرز اپنی ڈیوٹی پر تو رہیں گے لیکن تنخواہیں نہیں ملیں گی۔
-
ایف بی آئی، ڈی ای اے اور بارڈر سیکیورٹی ادارے بھی کام جاری رکھیں گے لیکن فنڈز کے مسائل کا سامنا ہوگا۔
-
سوشل سکیورٹی، میڈی کیئر اور میڈیکیڈ کی ادائیگیاں جاری رہیں گی، مگر عملے میں کٹوتیاں ہوں گی۔
-
فوڈ ایڈ پروگرام (SNAP اور WIC) وقتی طور پر فنڈز کے تحت چلتے رہیں گے۔
-
ڈاک کی ترسیل متاثر نہیں ہوگی کیونکہ یو ایس پوسٹل سروس کانگریس کے بجٹ پر انحصار نہیں کرتی۔
-
عدالتیں محدود عرصے تک چل سکیں گی لیکن طویل شٹ ڈاؤن کی صورت میں ان کا نظام بھی رک سکتا ہے۔
-
چھوٹے کاروبار کے لیے قرضے اور سہولتیں روک دی جائیں گی۔
-
اہم معاشی اعداد و شمار جیسے روزگار اور جی ڈی پی رپورٹس کی اشاعت معطل ہو جائے گی۔
سیاسی کشمکش
یہ شٹ ڈاؤن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے براہِ راست جڑا ہے۔ ٹرمپ نے پہلے ہی وفاقی حکومت کے سائز کو کم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور کہا ہے کہ شٹ ڈاؤن ان کے لیے مزید ملازمتوں اور پروگرامز میں کٹوتی کا راستہ ہموار کرے گا۔ ان کے بجٹ ڈائریکٹر رسل ووٹ نے یہاں تک دھمکی دی ہے کہ اگر شٹ ڈاؤن طویل ہوا تو مستقل برطرفیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ وہ امریکی عوام کے ہیلتھ کیئر کے بغیر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
سینیٹ ڈیموکریٹک لیڈر چک شومر کہتے ہیں کہ ’وہ (ٹرمپ) ہمیں دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
دوسری جانب ریپبلکن رہنما جان تھون نے کہا کہ یہ سب سیاسی کھیل ہے اور شٹ ڈاؤن کی کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے۔
معیشت پر اثرات
اس بحران نے عالمی منڈیوں کو بھی ہلا دیا ہے۔ وال اسٹریٹ فیوچرز نیچے گر گئے، سونے کی قیمت ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی اور ایشیائی مارکیٹس میں بھی غیر یقینی صورتحال دیکھنے کو ملی۔ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ امریکی حکومت کے اعداد و شمار میں تاخیر اور ملازمتوں کے ضیاع سے عالمی معیشت پر دباؤ بڑھے گا۔
یہ شٹ ڈاؤن کب تک چلے گا؟
رائٹرز کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی ماحول اور پارٹیوں کی شدت پسندی کو دیکھتے ہوئے یہ شٹ ڈاؤن ماضی کے مقابلے میں زیادہ طویل ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی تاریخ کا سب سے لمبا شٹ ڈاؤن 2018-19 میں ٹرمپ کے پہلے دور میں ہوا تھا جو 35 دن جاری رہا۔
عوام کے لیے اس کا مطلب کیا ہے؟
-
عام امریکی شہریوں کو ایئرپورٹس پر سیکورٹی اور پروازوں میں تاخیر کا سامنا ہوگا۔
-
ہزاروں سرکاری ملازمین بغیر تنخواہ کے گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہوں گے۔
-
ہیلتھ کیئر اور سماجی سہولتوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگی۔
-
معیشت میں بے یقینی بڑھنے سے مہنگائی اور روزگار کے مواقع مزید دباؤ میں آ سکتے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب امریکا 37.5 ٹریلین ڈالر کے ریکارڈ قرض تلے دبا ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس اور وائٹ ہاؤس نے جلد کوئی معاہدہ نہ کیا تو یہ بحران نہ صرف امریکی عوام بلکہ عالمی معیشت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔