غزہ کے مظلوم عوام کے لیے امداد لے جانے والے ’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ کو اسرائیلی فوج نے روک کر اس کی کشتیوں کو قبضے میں لے لیا ہے۔ غیر ملکی اور عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی بحریہ نے فلوٹیلا کو غزہ سے تقریباً ستر ناٹیکل میل دور گھیرے میں لے کر کارروائی کی۔ اس دوران اسرائیلی کمانڈوز نے اچانک دھاوا بولتے ہوئے 13 کشتیوں کو تحویل میں لے لیا اور ان پر موجود 200 کے قریب سرگرم کارکنوں کو حراست میں لے کر اسرائیلی بندرگاہ منتقل کر دیا۔ 30 کشتیاں اب بھی غزہ کی جانب رواں دواں ہیں۔
فلوٹیلا کے منتظمین کے مطابق اسرائیلی اہلکاروں نے الما اور سائرس نامی کشتیوں پر سوار تمام افراد کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار افراد میں زیادہ تر کا تعلق اسپین اور اٹلی سے ہے۔
اس قافلے کے جہازوں میں دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کارکن شامل تھے، جن کی تعداد پانچ سو سے زائد ہے اور ان کا تعلق چھیالیس مختلف ممالک سے بتایا جاتا ہے۔
گرفتار ہونے والوں میں عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی بحریہ نے فلوٹیلا کے چوالیس میں سے چار جہاز قبضے میں لے لیے ہیں، جن میں گریٹا تھنبرگ کا جہاز بھی شامل ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امدادی قافلے گلوبل صمود فلوٹیلا کے منتظمین نے بتایا کہ جب ان کی کشتیوں نے غزہ کے قریب سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی تو دو اسرائیلی جنگی جہازوں نے انتہائی خطرناک اور دھمکانے والے انداز میں دو کشتیوں، ’الما‘ اور ’سیریئس‘ کا گھیراؤ کیا۔
قافلے میں موجود برازیل کے کارکن تھییاگو اویلا نے بتایا کہ اس دوران تمام نیویگیشن اور کمیونیکیشن سسٹمز اچانک بند ہو گئے، منتظمین نے اسے ’سائبر حملہ‘ قرار دیا۔
اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اس واقعے کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ تمام گرفتار کارکن محفوظ ہیں۔

رائٹرز کے مطابق اسرائیل کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی بحریہ نے غزہ کی جانب رواں فلوٹیلا سے رابطہ کرکے اسے راستہ تبدیل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وزارت کے مطابق، اسرائیل نے فلوٹیلا کو آگاہ کیا ہے کہ وہ ایک فعال جنگی علاقے کے قریب پہنچ رہی ہے اور قانونی بحری محاصرے کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
اسرائیلی افواج نے اعلانات کیے ہیں کہ آپ نہ رکے تو ہم آپ کی کشتیاں ضبط کرلیں گے، جس پر آرگنائزز نے جواب دیا کہ ہمیں روکا توآپ بین القوامی جرم کے مرتکب ہوں گے۔
فلوٹیلا آرگنائزرکا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنے منصوبے پرعمل پیرا ہوتا نظرآتا ہے، اسرائیل کا ہمارا قافلہ غیرقانونی طورپر روکنا چاہتا ہے، لگتا ہے ہمیں غزہ سے 50 میل دور روک دیا جائے گا، صیہونی رات کی تاریکی میں شیطانی کام کرتے ہیں۔
فلوٹیلا کے ارکان سے رابطہ بھی منقطع ہوگیا ہے۔
اس سے قبل یورپین پارلیمنٹ کی فرانسیسی رکن ایما فوریا نے بھی ’ایکس‘ پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ اسرائیل کے ہاتھوں ہمارا اغوا ہونا اب یقینی ہوگیا ہے، دس سے بارہ جہاز ہمارے فلوٹیلا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
دوسری جانب فلوٹیلا کے منتظمین کا کہنا ہے کہ کارروائی سے قبل قافلے پر ہنگامی حالت نافذ کی گئی تھی، مگر اسرائیلی افواج نے وارننگ دینے کے بعد آپریشن کرتے ہوئے کسی مزاحمت کے بغیر جہازوں پر قبضہ کر لیا۔
فلوٹیلا میں شامل آئرلینڈ کے سینیٹر کرس اینڈریو نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ایکس‘ پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ کہ ہم پر اسرائیل فورسز کا حملہ متوقع ہے، آئرلینڈ کی حکومت اور یورپی یونین مداخلت کرے۔
’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ انسانی ہمدردی کے تحت غزہ کے محصور عوام تک امداد پہنچانے کی ایک بڑی عالمی مہم ہے، جس میں دنیا بھر سے کارکنان شریک ہیں۔ فلوٹیلا کے جہاز خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان لیے غزہ کی طرف بڑھ رہے تھے تاکہ وہاں جاری انسانی بحران کو کم کیا جا سکے۔
اس قافلے میں پاکستان کی نمائندگی بھی شامل ہے اور پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی ایک جہاز پر موجود ہیں۔ ان کی موجودگی نے اس معاملے کو پاکستان میں مزید اہم بنا دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم بین الاقوامی قانون کے ساتھ کھڑے ہیں اور جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے وہ ناقابلِ قبول ہے۔ اسے ابھی روکا جائے۔
قافلہ خوراک اور ادویات غزہ پہنچانے کے لیے روانہ ہوا ہے اور اس وقت وہ غزہ کے ساحل سے تقریباً 70 ناٹیکل مائل دور ہے۔ یہ اس مقام سے صرف تقریبا کچھ میل دور ہے جہاں جون میں امدادی جہاز ’میڈلین‘ پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔ فلوٹیلا منتظمین کا کہنا تھا کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو قافلہ جمعرات کی صبح غزہ پہنچ جائے گا۔
قافلے نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دنوں ان کی کشتیوں پر ڈرونز سے حملے بھی کیے گئے، جن میں اسٹن گرنیڈز اور خارش پیدا کرنے والا پاؤڈر پھینکا گیا۔ ان حملوں سے کشتیوں کو نقصان تو پہنچا، لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بحری قافلے فلوٹیلا کے منتظمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے ان اشتعال انگیز اقدامات نے 40 سے زائد ممالک کے نہتے شہریوں کی جان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس کے باوجود، ہمارا قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہے گا۔
بحری قافلے میں شامل پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ فلوٹیلا پراسرائیل کی جانب سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میرا موبائل پہلے ہی اسرائیل نے جام کر دیا ہے لہذا اب اس ناکارہ فون کو میں سمندر برد کرتا ہوں۔
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر جاری کردہ ویڈیو میں مشتاق احمد خان نے بتایا کہ دور سے اسرائیلی جنگی جہاز نظر آنا شروع ہو چکے ہیں، جس کے بعد حملے کا امکان مزید بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہنگامی صورتحال کے پیشِ نظر حفاظتی جیکٹس پہن لی ہیں، لیکن ہمارا سفر رکے گا نہیں۔
رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ میں فلسطینی حقوق سے متعلق اعلیٰ ماہر فرانچیسکا البانیزے کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے اس قافلے کو روکا تو یہ ”بین الاقوامی قانون اور سمندری قوانین کی کھلی خلاف ورزی“ ہوگی، کیونکہ اسرائیل کو غزہ کے ساحلی پانیوں پر کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔
یاد رہے کہ 2010 میں بھی غزہ کے لیے امداد لے جانے والی فلوٹیلا پر اسرائیلی فورسز نے حملہ کیا تھا، جس میں 9 کارکن جاں بحق ہو گئے تھے۔
رائٹرز کے مطابق قافلے کے ممکنہ ریسکیو یا انسانی امداد کے مقصد سے اٹلی اور اسپین نے اپنے بحری جہاز علاقے میں تعینات کر رکھے ہیں، تاہم دونوں ممالک نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے۔
ادھر، ترکی کے ڈرونز بھی قافلے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اٹلی اور اسپین کا کہنا ہے کہ وہ قافلے کا ساتھ اس وقت تک دیں گے جب تک وہ غزہ کے ساحل سے 150 بحری میل کے اندر نہ آ جائے۔
بدھ کے روز اٹلی اور یونان نے مشترکہ طور پر اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ کشتیوں پر سوار کارکنان کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ دونوں ممالک نے قافلے سے یہ بھی کہا کہ امداد کو کیتھولک چرچ کے ذریعے غزہ پہنچانے کی اجازت دی جائے، تاہم فلوٹیلا منتظمین نے یہ تجویز مسترد کر دی ہے۔