اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کی کوشش میں روانہ ہونے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے قافلے کے گرفتار ارکان نے اسرائیلی فوج کی جانب سے فراہم کردہ کھانا قبول کرنے سے انکار کر دیا، دوسری جانب دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں، جہاں لوگ نہ صرف فلوٹیلا کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں بلکہ اسرائیلی رویے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔
غزہ کے لیے دوائیں اور کھانے کا سامان لے کر رواں دواں قافلے کی 13 کشتوں کو اسرائیلی بحریہ نے بدھ کی شب گھیر کر ناصف ان میں سے چار کو قبضے میں لے لیا بلکہ ان کے کمیونیکیشن سسٹم کو جام کیا اور کیمروں کی لائیو فیڈ بند کر دی۔
انہی کشتیوں میں وہ کشتی بھی شامل تھی جس پر معروف ماحولیاتی کارکن ’گریٹا تھنبرگ موجود تھیں۔ کچھ مسافروں نے اپنے پاسپورٹ دکھاتے ہوئے ویڈیوز بنائیں اور کہا کہ انہیں زبردستی اسرائیل لے جایا جا رہا ہے۔
فلوٹیلا کے ارکان اور منتظمین نے اسرائیلی اقدام کو سختی سے رد کیا اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانون کی صریحاً نفی قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا مشن مکمل طور پر انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر مبنی ہے، جس کا مقصد غزہ کے محصور عوام تک براہِ راست امداد پہنچانا اور غیر قانونی ناکہ بندی کو توڑنا ہے۔
اس حوالے سے جاری ایک وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گلوبل صمود فلوٹیلا کی کشتی پر سوار کارکن ظلم کے خلاف بھوک ہڑتال کا اعلان کر رہے ہیں اور اس اھٹجاج کو ریکارڈ کر وا رہے ہیں کہ ہم یہ کھانا نہیں کھائیں گے جو فلسطینیوں کو بھوکا رکھ رہے ہیں۔
ایک اسرائیلی فوجی افسر نے ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کو بریڈ پیش کی، تو انہوں نے اسے مسکراتے ہوئے لینے سے انکار کر دیا، ان کا یہ واضح مؤقف تھا کہ اگر اسرائیلی حکام واقعی انسانی ہمدردی رکھتے تو وہ گلوبل فلوٹیلا کو روکنے کے بجائے اسے غزہ تک محفوظ راستہ فراہم کر دیتے۔
اسرائیل کی طرف سے 13 کشتیوں کو قبضے میں لینے کے بعد اب بھی 30 کشتیاں بدستورغزہ کی سمت بڑھ رہی ہیں اور یہ فلوٹیلا کے منتظمین اور کارکن کسی قیمت پر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ قافلہ کسی قیمت پر نہیں رکے گا اور غزہ کی مظلوم آبادی تک آواز اور امداد پہنچانے کی اپنی کوشش جاری رکھے گا۔
اسرائیلی افواج نے گلوبل صمود فلوٹیلا کے بحری جہازوں کو بین الاقوامی پانیوں میں روکنے کے لیے بھرپور طاقت کا استعمال کیا۔ انہوں نے کئی جہازوں کے راستے میں رکاوٹ ڈالی، انہیں گھیرے میں لیا، اور بعض کشتیوں کو پاورفل واٹر کینن کے طاقتور پانی سے نشانہ بنایا تاکہ عملے کے ارکان کو خوفزدہ کیا جا سکے اور انہیں آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔
اس جارحانہ کارروائی کے بعد، اسرائیلی کمانڈوز نے زبردستی فلوٹیلا کی کشتیوں پر چڑھائی کی اور امدادی کارکنوں، صحافیوں اور پارلیمنٹیرینز سمیت کئی افراد کو حراست میں لے لیا۔ ان حراست میں لیے گئے افراد کو اسرائیلی بندرگاہوں جیسے اشدود منتقل کیا گیا، جہاں ان سے تفتیش کی گئی اور انہیں نفسیاتی دباؤ میں لانے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے۔
دوسری طرف اسرائیل کی طرف سے ان کارروائیوں کے بعد شدید بین الاقوامی ردِ عمل سامنے آیا۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پرفلوٹیلا کے ساتھ اسرائیلی کارروائیوں، کشتیوں کو روکنے اور کارکنوں کو حراست میں لینے کے خلاف اپنا شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ اس احتجاج کے ذریعے اسرائیل کے عمل کی مذمت کی گئی اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ حراست میں لیے گئے کارکنوں کی فوری رہائی کو یقینی بنائے۔
ترکی نے کارروائی کو دہشت گردی کا عمل قرار دیا اور استنبول میں اسرائیلی قونصل خانے کے باہر فلسطینی حامی کارکنوں اور شہریوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا اور فلوٹیلا پر کیے گئے حملے اور اس کے ارکان کو حراست میں لینے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
گلوبل صمود فلوٹیلا کی حمایت میں، اسپین کے شہر بارسلونا کی سڑکوں پر رات 12 بجے شدید احتجاج شروع ہو گئے۔
ملائیشیا نے کہا کہ اس کے آٹھ شہری اسرائیلی حراست میں ہیں۔ کولمبیا کے صدر نے تو اسرائیلی سفارتی عملے کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ ’آزاد تجارتی معاہدہ ختم‘ کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔ اٹلی اور کولمبیا میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، اٹلی کی مزدور یونینز نے جمعہ کو ہڑتال کا اعلان کیا۔