زحل کے چاند پر موجود سمندر میں زندگی کے مزید ثبوت دریافت

0 minutes, 0 seconds Read

ہمارے نظام شمسی کے سیارے زحل کے برفیلے خول میں چھپے ہوئے سمندر نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کی توجہ ایک بار پھر اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ ایک حالیہ مطالعے کے مطابق، زحل کے اس چھوٹے سے چاند ’اینسیلیڈس‘ کے زیرِ سطح سمندر میں پیچیدہ آرگینک مالیکیولز کی موجودگی کا ٹھوس ثبوت ملا ہے۔

اینسیلیڈس یہ ایک چھوٹا، برف سے ڈھکا ہوا چاند ہے، جو اپنی برف کی موٹی تہہ کے نیچے ایک وسیع نمکین پانی کا سمندر چھپائے ہوئے ہے۔ اسی سمندر کی وجہ سے یہ سائنسدانوں کے لیے زندگی کی تلاش کے حوالے سے نظام شمسی کے سب سے اہم مقامات میں سے ایک بن چکا ہے۔

اس کا قطر تقریباً 500 کلومیٹر ہے۔ صرف آنکھ سے یہ چاند نظر نہیں آتا۔ ایک طویل عرصے تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سورج سے زیادہ دوری کی وجہ سے یہ چاند زندگی کے لیے بہت سرد اور ناموزوں ہے۔

تاہم، 2004 سے 2017 کے درمیان زحل کا چکر لگانے والے ’کیسینی خلائی جہاز‘ نے اپنے مشن کے دوران کئی بار اینسیلیڈس کے قریب سے پرواز کی۔ اس کے نتیجے میں یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ چاند کی کئی کلومیٹر موٹی برف کی تہہ کے نیچے نمکین پانی کا ایک وسیع سمندر موجود ہے۔

سائنسدانوں نے ہماری نظام شمسی سے گزرنے والی انٹرسٹیلر شے دریافت کرلی

سمندر کی گہرائیوں سے نمونے

کیسینی کے جمع کردہ ڈیٹا کا مسلسل تجزیہ جاری ہے، اور اب تک یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ زحل کے چاند اینسیلیڈس، سمندری زندگی کے لیے ضروری سمجھے جانے والے کئی عناصر سے مالا مال ہے، جن میں نمک، میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ، اور فاسفورس شامل ہیں۔

جب اسپیس پروب کیسینی نے چاند کے جنوبی قطب کے اوپر سے پرواز کی، تو اس نے سطح پر موجود دراڑوں سے پانی کے فواروں کو خلا میں نکلتے ہوئے دیکھا۔ یہ فوارے ریت کے دانے سے بھی چھوٹے برف کے ذرات خلا میں پھینک رہے تھے۔ ان ذرات میں سے کچھ تو واپس چاند کی سطح پر گر گئے، مگر باقی زحل کے ای رنگ’ کا حصہ بن گئے۔

نظام شمسی کی پیدائش کا عمل پہلی بار ریکارڈ کرلیا گیا

فری یونیورسٹی آف برلن سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اور اس نئے مطالعے کے مرکزی مصنف نوزیر خواجہ کے مطابق، جب کیسینی اس ’ای رنگ‘ سے گزرتا تھا تو اسے اینسیلیڈس کے نمونے مسلسل ملتے رہتے تھے۔ ان نمونوں میں پہلے بھی نامیاتی سالمات کی نشاندہی ہوئی تھی، لیکن ان کے بارے میں یہ خدشہ تھا کہ خلا میں طویل عرصے تک رہنے اور شعاعوں سے متاثر ہونے کے بعد ان کی اصلیت بدل گئی ہو گی۔

تازہ ترین تصدیق

سائنسدانوں کو تازہ ترین اور غیر متاثر نمونوں کی ضرورت تھی۔ خوش قسمتی سے، کیسینی اسپیس پروب نے 2008 میں براہ راست چاند کی سطح سے نکلنے والے فوارے کے اندر پرواز کی تھی۔ اس وقت، برف کے ذرات تقریباً 18 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے کیسینی کے کاسمک ڈسٹ اینالائزرسے ٹکرائے۔

ان ذرات کا تفصیلی کیمیائی تجزیہ ایک پیچیدہ عمل تھا جس میں کئی سال لگ گئے۔ رسالے ’نیچر ایسٹرونومی‘ میں شائع ہونے والے اس مطالعے کا موضوع یہی تجزیہ تھا۔


AAJ News Whatsapp

مطالعے کے شریک مصنف فرینک پوسٹ برگ نے تصدیق کی ہے کہ یہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ’کیسینی نے زحل کے ’ای رنگ‘ میں جن پیچیدہ نامیاتی سالمات کا پتہ لگایا تھا، وہ صرف خلا میں لمبے عرصے تک رہنے کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ وہ اینسیلیڈس کے سمندر میں پہلے سے ہی باآسانی دستیاب ہیں‘۔

فریسی نیٹ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ اے آئی جیسی جدید ٹیکنالوجی پرانے ڈیٹا کا نئے سرے سے تجزیہ کرنے میں سائنسدانوں کی مدد کر رہی ہے۔

تاہم، اینسیلیڈس میں اصل میں کیا ہو رہا ہے، اس کا سب سے بہترین اندازہ لگانے کے لیے ایک نئے مشن کی ضرورت ہے، جو اس برفیلے فوارے کے قریب اتر کر نمونے جمع کرے۔ یورپی اسپیس ایجنسی اس طرح کے ایک مشن کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔

Similar Posts