یہ وہ شعبہ ہے جس سے مشروم سازی، ریشم سازی، مگس بانی اور جڑی بوٹیوں کی کاشت جیسے چھوٹے کاروبار جڑے ہیں اور ہزاروں دیہی خاندانوں بالخصوص خواتین کے روزگار کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس سمت میں باقاعدہ پالیسی اپنائی جائے تو پاکستان نہ صرف غربت میں کمی کرسکتا ہے بلکہ ہربل میڈیسن اور کاسمیٹکس کے شعبے میں خود کفیل بھی ہو سکتا ہے۔
قصور کے نواحی علاقے چھانگا مانگا کی فاطمہ بی بی اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ وہ کئی برسوں سے ریشم کے کیڑے پال کر گھر کے اخراجات پورے کر رہی تھیں۔ چار ہزار روپے میں سلک سیڈ خرید کر وہ ساٹھ سے ستر ہزار روپے تک آمدن حاصل کر لیتی تھیں، انہوں نے مشروم اگانے کی تربیت بھی حاصل کی تھی مگر عملی سہولتیں نہ ملنے سے یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ فاطمہ کی طرح ہزاروں خاندان، جو تربیت یافتہ ہیں، اب بے روزگاری کا شکار ہیں۔
محکمہ جنگلات پنجاب نے 2021 میں سیری کلچر، مشروم فارمنگ، مگس بانی اور ادویاتی پودوں کی کاشت کے لئے 13 کروڑ 60 لاکھ روپے کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں ڈیڑھ ہزار مردوں اور پانچ سو خواتین کو تربیت دی گئی لیکن اگلے ہی سال منصوبہ ختم کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام افراد مایوس ہوگئے جنہوں نے عملی طور پر یہ کاروبار شروع کرنے کا خواب دیکھا تھا۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ظفر صدیق کے مطابق دنیا کی 70 سے 80 فیصد آبادی آج بھی ہربل میڈیسن استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں ایلوویرا، تلسی، کلونجی، اجوائن اور مورنگا جیسے پودوں کی کاشت کے وسیع مواقع ہیں، لیکن ان کی طلب پوری کرنے کے لیے ہم بھارت سے درآمد پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خواتین کو بیج اور بنیادی تربیت فراہم کی جائے تو کچن گارڈننگ کے ذریعے یہ سلسلہ باآسانی شروع ہوسکتا ہے، جو آمدن اور صحت دونوں کے لئے سودمند ہوگا۔
سیری کلچر کے ڈپٹی ڈائریکٹر فاروق بھٹی نے تصدیق کی کہ اس وقت ان کا ادارہ صرف ریشم سازی پر محدود فنڈز کے ساتھ کام کر رہا ہے، جبکہ مشروم، شہد اور جڑی بوٹیوں پر صرف تجرباتی منصوبے چل رہے ہیں۔ ان کے مطابق چھانگا مانگا سمیت مختلف اضلاع میں جاپانی شہتوت کی کاشت کی گئی ہے، جو ریشم کے کیڑوں کی خوراک کے ساتھ ساتھ ادویات اور دستکاری کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
سلک فارمنگ اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر رانا سعید انور کا کہنا ہے کہ 2021 اور 2022 میں اس منصوبے کا ہدف ایک لاکھ خاندانوں کو روزگار دینا تھا، جو مرحلہ وار بڑھا کر دس لاکھ تک جانا تھا۔ لیکن ڈائریکٹوریٹ کے ختم ہونے سے یہ خواب ادھورا رہ گیا۔ ان کے مطابق صرف مگس بانی سے چار لاکھ اور ریشم سازی سے سات لاکھ افراد کو روزگار دیا جاسکتا تھا، جبکہ ادویاتی پودوں کی کاشت سے 30 ہزار خواتین گھریلو سطح پر آمدن حاصل کرسکتی تھیں۔
محکمہ جنگلات پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل اظفر ضیاء کا کہنا ہے کہ حکومت نان ٹمبرفارمنگ پرڈیوس کے شعبے کوفعال کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ پنجاب میں ساڑھے بارہ لاکھ ایکڑ جنگلات میں موجود جڑی بوٹیوں اور پودوں کا سروے مکمل کرلیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ قریبی آبادیوں کو نان ٹمبر فاریسٹ پرڈیوس سے متبادل روزگار دیا جائے تاکہ لوگ لکڑی کاٹنے کے بجائے ان وسائل سے مستفید ہوں۔
ماہرین متفق ہیں کہ ایک منظم پالیسی اور مستقل فنڈنگ کے ذریعے ہی نان ٹمبر فاریسٹ پرڈیوس جیسے منصوبے دیہی خواتین اور چھوٹے کسانوں کے لئے پائیدار روزگار ثابت ہوسکتے ہیں۔