اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس نے اسرائیل کی قید میں 23 سال سے قید مروان برغوثی اور 19 سال سے قید احمد سعدات سمیت چار قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق چار فلسطینی قیدی جن میں مروان برغوثی، احمد سعدات، ابراہیم حامد، اور عباس السید کسی بھی ممکنہ قیدیوں کے تبادلے میں حماس کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مروان برغوثی، مغربی کنارے میں (تنظیم التنسیم) ملیشیا کے سابق سربراہ اور فتح تحریک کے سینئر رہنما اور اہم قائدین میں شامل تھے۔ انہیں اپریل 2002 میں اسرائیلی فوجی آپریشن ”ڈیفینسو شیلڈ“ کے دوران فلسطین کے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسرائیلی سول عدالت نے اُنہیں پانچ افراد کے قتل اور دیگر الزامات میں مجرم قرار دیتے ہوئے پانچ مرتبہ عمر قید اور اضافی سزائیں سنائی تھیں۔
مختلف عوامی سروے کے مطابق مروان برغوثی آج بھی سب سے مقبول فلسطینی سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں، اور اکثر مذاکرات میں حماس ان کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
احمد سعدات نے اکتوبر 2001 میں فلسطین لبریشن فرنٹ کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ اس وقت سنبھالا تھا جب اسرائیلی افواج نے ان کے پیشرو ابو علی مصطفی کو شہید کر دیا تھا۔ اسرائیل انہیں 2001 میں اسرائیلی سیاحت کے وزیر ریخاڤم زئیوی کے قتل کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار ٹھہراتا آیا ہے۔
سعدات کئی سال فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں اریحا کی جیل میں قید رہے، جہاں ان پر برطانوی اور امریکی نگران تعینات تھے۔ جب یہ نگران ہٹائے گئے تو مارچ 2006 میں اسرائیلی فوج نے جیل پر چھاپہ مارا اور سعدات کو گرفتار کر لیا تھا۔ پھر سال 2008 میں ایک اسرائیلی فوجی عدالت نے انہیں 30 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
وہیں ایک اور فلسطینی قیدی ابراہیم حامد نے دوسری انتفاضہ کے دوران مغربی کنارے میں حماس کے عسکری ونگ، عزالدین القسام بریگیڈز، کے سینئر کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دیں تھیں۔ انہیں مئی 2006 میں رام اللہ سے گرفتار کیا گیا تھا
اس کے علاوہ طولکرم سے تعلق رکھنے والے عباس السید حماس کے سینئر رکن ہیں جو کئی سال سے اسرائیل کی قید میں موجود ہیں۔ انہیں تل ابیب ڈسٹرکٹ کورٹ میں مجرم قرار دے کر 35 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
حماس اسرائیل مذاکرات کا دوسرا دور آج ہوگا۔ العربیہ کی رپورٹ کے مطابق ایک فلسطینی عہدے دار نے بتایا ہے کہ حماس مذاکرات کے دوران اس بات پر بھی زور دے گی کہ امداد کو بڑی مقدار یعنی روزانہ اوسطاً 400 ٹرکوں کی شکل میں داخل ہونے دیا جائے۔ وہ اس بات کا بھی مطالبہ کرے گی کہ غزہ کے رہائشیوں کے لیے جنوبی اور شمالی علاقوں کے درمیان نقل و حرکت آسان بنائی جائے۔
واضح رہے پیر کو مصر کے شرم الشیخ میں حماس اور اسرائیلی وفود کے درمیان مذاکرات ہوئے جو رات دیر تک جاری رہے جس میں امریکا، قطر اور مصر نے بطور ثالث شرکت کی تھی۔
خلیل الحیہ کی قیادت میں حماس کا وفد مذاکرات میں شریک تھا۔ اسرائیلی وفد کی قیادت ڈونلڈ ڈرمر کر رہے تھے، مذاکرات میں ثالِثوں کے ذریعے فریقین کے موقف اور مطالبات کا تبادلہ جاری تھا۔ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنر امریکا کی نمائندگی کے لیے موجود تھے ۔۔ عرب میڈیا کا دعویٰ ہے کہ حماس عالمی نگرانی میں اسلحہ سپرد کرنے پر آمادہ ہوا ہے۔