عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسکول کی عمارت کے ایک حصے کی بالائی منزلیں زیر تعمیر تھا۔ عمارت کے گرنے کے وقت وہاں 170 سے زائد طلبا اور اساتذہ موجود تھے۔
حادثے کے فوراً بعد مقامی حکام، فوج، پولیس اور نیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی (Basarnas) نے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا جو آج مسلسل نویں روز تک جاری رہنے کے بعد ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
امدادی کارروائیوں کے ابتدائی تین دنوں میں زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کے لیے ہاتھوں اور ہلکی مشینری کا استعمال کیا گیا۔ متاثرہ خاندان جائے حادثہ پر اپنے پیاروں کی تلاش میں بے چین کھڑے رہے۔
72 گھنٹوں کے بعد، جب “گولڈن پیریڈ” یعنی زندہ بچ جانے والوں کو ڈھونڈنے کا بہترین وقت ختم ہوگیا تو لواحقین کی اجازت کے بعد ملبہ ہٹانے کے لیے بھاری مشینری استعمال کی گئی۔ جیسے جیسے ریسکیو آپریشن آگے بڑھا، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔
نیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کے سربراہ محمد شفیع نے میڈیا کو بتایا کہ نو دن کی کارروائی کے بعد ریسکیو مشن باضابطہ طور پر ختم کردیا گیا ہے۔
قومی آفات ایجنسی (BNPB) کے نائب سربراہ بُدی اراوان نے کہا کہ اب مزید لاشوں کے موجود ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے ملبہ ہٹانے کا کام مکمل کرلیا گیا۔
ایجنسی کے آپریشنز ڈائریکٹر نے بتایا کہ امدادی کاموں کے دوران کُل 171 افراد کو ملبے سے نکالا گیا۔ جن میں سے 67 مردہ حالت میں ملے اور 8 انسانی اعضا بھی نکالے گئے جب کہ 104 کو زندہ بچا لیا گیا۔
پولیس کی ڈیزاسٹر وکٹم آئیڈینٹیفیکیشن ٹیم کے مطابق اب تک صرف 17 لاشوں کی شناخت ہوسکی ہے، جس سے لواحقین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق ناقص تعمیراتی معیار اس المناک حادثے کی بڑی وجہ ہوسکتی ہے تاہم حتمی رپورٹ تفتیش مکمل ہونے کے بعد جاری کی جائے گی۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں تعمیراتی قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے سے اس طرح کے مزید سانحات رونما ہوسکتے ہیں۔
اس سے قبل ستمبر میں مغربی جاوا میں ایک عمارت گرنے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے، جس نے ملک بھر میں عمارتوں کی سلامتی کے حوالے سے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔