ووٹ بینک کے خلاف سیاست ووٹ بینک میں کمی بلکہ خاتمے کے نتائج دیتی ہے۔ اس لیے میں سیاسی جماعتوں کی پالیسی کو ان کے ووٹ بینک کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔ ووٹ بینک پر مصلحت اقتدارکے لیے ممکن ہے لیکن اس کے اچھے نتائج نہیں ہوتے۔
آجکل مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان لڑائی کو بھی ووٹ بینک کی سیاست کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اس لڑائی کو ووٹ بینک کے تناظر میں دیکھیں تو بات آسانی سے سمجھ آجائے گی۔لڑائی پنجاب کی ہے۔ پنجاب میں دو ووٹ بینک ہیں۔ ایک تحریک انصاف کا ووٹ بینک ہے، دوسرا مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک ہے۔ پیپلزپارٹی کا ووٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پیپلزپارٹی کبھی پنجاب میں بڑا ووٹ بینک تھا۔ لیکن آج وہ اپنا یہ ووٹ بینک کھو چکی ہے لیکن وہ پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کی بحالی چاہتی ہے۔
پیپلزپارٹی تحریک انصاف کا ووٹ بینک حاصل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ تحریک انصاف کی سیاسی حمائت کرنے سے ممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی ن لیگ کا ووٹ بینک بھی ان کے ساتھ اتحاد کے ہوتے ہوئے حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے ووٹ بینک کے لیے اسے کچھ کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں ن لیگ کا مخالف ووٹ بینک حاصل کرنا چاہتی ہے۔ روائتی طور پر بھی پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب میں ن لیگ کا مخالف ووٹ بینک رہا ہے۔
پیپلزپارٹی سوچ رہی ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف نے اس کے ووٹ بینک پر قبضہ کیا تھا۔ یہ روائتی طور پر ن لیگ کا مخالف ووٹر ہے۔ اس لیے اس ووٹر کو واپس پیپلزپارٹی میں لانے کے لیے ن لیگ کی سب سے بڑی مخالف جماعت بننا ضروری ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چند برسوں سے پیپلزپارٹی کو بادل نخواستہ ن لیگ کے ساتھ مل کر سیاست کرنا پڑ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ ن لیگ کی حمایت کی وجہ سے اس کا روائتی ن لیگ مخالف ووٹر ناراض ہو کر تحریک انصاف میں چلا گیا۔
اس لیے ووٹ بینک کی واپسی کے لیے ن لیگ کی مخالفت ضروری ہے۔ اسی لیے ہم پنجاب میں ن لیگ کی مخالفت دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی ہے۔ ایک رائے کہ اگلے انتخابات تک شاید تحریک انصاف کمزور سے کمزور ہوتی جائے گی۔ بانی کافی حد تک مائنس ہو جائیں گے۔
ن لیگ مخالف ووٹر کے پاس کوئی چوائس نہیں۔ پیپلزپارٹی وہ چوائس بننا چاہتی ہے۔ وہ ن لیگ کا مخالف ووٹ بینک حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ مریم نواز کی مخالفت کر رہی ہے۔ ورنہ مخالفت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن یہ اگلے الیکشن کی تیاری ہے۔
ن لیگ کو اس بات کی سمجھ ہے، انھیں پی پی پی کی مجبوریوں کا بھی اندازہ ہے۔ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ پنجاب میں اسے ن لیگ کے خلاف کھل کر کھیلنا چاہیے۔تا کہ ووٹر انھیں ن لیگ کا حقیقی مخالف سمجھ سکے۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ ووٹر بہت سمجھدار ہوتا ہے۔ وہ جعلی کھیل کے جھانسے میں نہیں آتا۔ جعلی لڑائی سب کی سمجھ میں آجاتی ہے۔اس لیے لڑائی کو اصلی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ پنجاب حکومت کے ساتھ اس کی اصلی لڑائی ہو جائے لیکن مرکز جیسا ہے ویسا ہی چلتا رہے۔
پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ ان کے پاس کوئی وزارتیں نہیں ہیں۔ کوئی حکومتی عہدے نہیں ہیں۔ وہ مرکز میں بھی ن لیگ کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی ایک ہی مجبوری ہے کہ وہ شہباز شریف کی حکومت گرا نہیں سکتے۔ اب ن لیگ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اکیلے بھی کام چلا سکتی ہے۔ صرف اہم موقعوں پر مدد چاہیے ہوگی۔ پیپلزپارٹی حکومتی بینچز پر بیٹھ کر اپوزیشن بننے کا سوچ رہی ہے۔
اس لیے مجھے اب پیپلزپارٹی اور پنجاب کی ن لیگ کے درمیان پائیدار صلح نظر نہیں آرہی۔ ندیم افضل چن کے پاس اسکرپٹ ہے۔ قائرہ صاحب کے پاس بھی اسکرپٹ ہے۔ ان کو ن لیگ کو چیلنج کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ سب کورس میں ن لیگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس پر حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پیپلزپارٹی ن لیگ کا مخالف ووٹ بینک دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک لمبا کھیل ہے۔ اگلے الیکشن تک چلنا ہے۔ مقتدر ہ بھی اس کھیل سے پریشان نہیں۔ وہ سسٹم کو خطرہ نہیں دیکھ رہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کاووت بینک پیپلزپارٹی میں جا سکتا ہے؟ کیا تحریک انصاف کے ووٹر کی پیپلزپارٹی چوائس ہو سکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں اب یہ ممکن نہیں۔ وہ کسی نئے پلیٹ فارم کی طرف تو جا سکتا ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کی طرف نہیں جا سکتا۔ لیکن اس حوالے سے دلیل ہے کہ کوشش میں کرنے میں کیا حرج ہے۔ تھوڑا سا بھی مل گیا تو سودا برا نہیں ہے۔ چند سیٹیں ہی نکل آئیں۔ چند حلقوں میں جہاں پیپلزپارٹی کے پاس اچھے امیدوار ہیں۔ وہاں نتائج آسکتے ہیں۔ تحریک انصاف سے ناراض لوگ پیپلزپارٹی میں آسکتے ہیں۔
وہ بھی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ نئی سیاسی جماعتوں میں جانے کا فارمولہ بھی فیل ہو گیا ہے۔ اس لیے جو لوگ ن لیگ کے مخالف الیکشن لڑتے ہیں، ان کے لیے پیپلزپارٹی ایک چوائس بننا چاہتی ہے۔ آپ اس کھیل کی کامیابی اور نتائج پر بات کر سکتے ہیں۔ لیکن کھیل یہی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آپ کو سینیٹ میں بائیکاٹ نظر آرہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں تقاریر نظر آرہی ہیں۔ پریس کانفرنسیں نظر آرہی ہے۔ سب ایک ماحول بنایا جا رہا ہے۔ تا کہ ووٹر کو یقین آجائے۔ لیکن ن لیگ کے لیے مشکلات ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کی مخالفت دوسری طرف پیپلزپارٹی کی مخالفت۔ لیکن اقتدار کی ایک قیمت ہوتی ہے اور وہ ادا کرنی پڑتی ہے۔