جدوجہد کا نیا ماڈل

0 minutes, 0 seconds Read
پاکستانی کشمیرکی آبادی 40 لاکھ کے قریب ہے۔ اس علاقے میں خواندگی کی شرح 91 فیصد کے قریب ہے جب کہ بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں، یہ شرح 84 فیصد کے قریب ہے۔ کشمیر کی آبادی کا آدھا حصہ پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ برطانیہ اور یورپی ممالک میں آباد ہے۔ یہاں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 10.35 فیصد کے قریب ہے۔

کشمیر میں تاریخی طور پر جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیریوں نے مغل راج کو بھی قبول نہیں کیا تھا۔ 1586میں مغل بادشاہ اکبر نے دھوکے سے کشمیر کے بادشاہ یوسف شاہ چک کو ہندوستان بلا کر گرفتار کر لیا تھا۔ یوسف کی ملکہ ہبا خاتون نے جنگلوں میں جاکر لڑائی لڑی تھی اور جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔

کشمیری امورکے ماہر بشیر سدوزئی کا کہنا ہے کہ ہبا خاتون نے کشمیری زبان میں شاعری کر کے کشمیروں میں جوش پیدا کیا تھا، یوں کشمیر کی رانی کی شاعری کو برصغیر ہندوستان کی پہلی مزاحمت شاعری قرار دیا جاسکتا ہے۔

 کشمیریوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے اقتدار کو چیلنج کیا۔ گزشتہ صدی کے پہلے دو عشروں میں کشمیریوں کی ڈوگر راج کے خلاف جدوجہد برصغیر کی مزاحمتی تاریخ کا روشن باب ہے۔ شیخ عبداللہ نے سب سے پہلے آل انڈیا جموں کشمیر مسلم کانفرنس قائم کی۔

اس جماعت کو مزید توسیع دی گئی اور جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کا نام دیا گیا۔ شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں نے ڈوگر راج کے خلاف برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ شیخ عبد اللہ ایک قوم پرست رہنما تھے جب کہ پاکستان کے قیام کا معاملہ آیا تو انھوں نے پاکستان کی مخالفت کی مگر اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر آواز اٹھانے پر انھیں بھارتی حکومت نے کئی سال تک قید میں رکھا۔ 1947 میں بٹوارے کے بعد انگریز سرکار نے کشمیر کا مسئلہ جان بوجھ کر پیدا کیا۔

کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ پاکستان کی حکومت سے ریاست کشمیر کے الحاق کے لیے بات چیت کررہے تھے کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان میں ریاستوں کی خود مختاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اچانک قبائلی لشکر نے کشمیر میں داخل ہونے اور لوٹ مارکی بناء پر مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا اور آج تک کشمیرکا مسئلہ حل طلب ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آزاد جموں و کشمیر حکومت 1948ء سے قائم ہے اور اس کا ایک آئین بھی ہے مگر حقائق ظاہرکرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو راولپنڈی سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں سردار ابراہیم اور سردار قیوم وغیرہ کشمیر کے مقبول رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ اس طرح لبریشن فرنٹ کے رہنما مقبول بٹ جنھیں بھارتی دار الحکومت نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دیدی گئی تو جوانوں میں مقبول رہے۔

 نئی قیادت اس وقت سامنے آئی ہے، جب 70ء کی دہائی میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور 1973 کے آئین کے تحت نظام حکومت ترتیب دیا گیا تو آزادکشمیر میں 1974 میں ایک عبوری آئین نافذ کیا گیا۔ اس آئین کے تحت آزاد کشمیر کی ایک خود مختار حکومت قائم ہوئی۔ اس آئین میں کئی ترامیم ہوئیں۔ آئین کے ارتقائی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018میں اس آئین میں 13ویں ترمیم کی گئی جس کے تحت آئین کی بعض دفعات میں ترمیم کے لیے حکومت پاکستان کی منظوری لازمی قرار دی گئی۔ ایک زمانے میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی کشمیر میں شاخیں قائم نہیں ہوتی تھیں مگر یہ روایت ختم ہوئی۔

آزاد کشمیر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعتوں میں آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس، پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، مسلم لیگ آزاد جموں و کشمیر، لبریشن لیگ، جماعت اسلامی آزاد کشمیر، تحریک انصاف آزاد کشمیر، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ جب بھی پاکستان میں حکومت میں تبدیلی آجاتی ہے، آزاد کشمیر میں بھی حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بائیں بازو کے مختلف گروپ بھی متحرک ہیں۔ ان گروپوں میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی قابلِ ذکر ہے جس نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں نوجوانوں کو اپنی جماعت کی طرف راغب کیا ہے۔

اگرچہ مسلم کانفرنس، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف وغیرہ اقتدار میں آتی رہیں مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ مختلف رہنما اسلام آباد میں حکومت میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوکر آزاد کشمیر میں جماعتیں بدلتے رہے اور کئی رہنما اسی طرح صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں پر فائز ہوئے اور پھر وزیر بن گئے مگر برسر اقتدار حکومتوں کی کارکردگی حسب روایت مایوس کن رہی ۔ آزادکشمیر میں یہ تاثر پیداہونے لگا کہ برسر اقتدار جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کے مسائل حل کرنے کی طرف زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔

گزشتہ 2 برسوں کے دوران اس تاثر کو بڑاوا دیا گیا، یوں مقامی تاجروں، وکلاء، صحافیوں اور دانشوروں نے ایک ایکشن کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا۔

عام آدمی حکومتوں کی کارکردگی سے مایوس تھا۔ یہ تحریک پورے آزاد کشمیر میں پھیل گئی، احتجاج شروع کیا۔ پھر حکومت کو ایکشن کمیٹی کے مطالبات تسلیم کرنا پڑے۔ بجلی کے نرخ مزیدکم کرنے پڑے۔ تاجروں پر عائد ٹیکس کم کرنے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں ضروریات اور سہولتوں کی فراہمی کے مطالبات حکومت کو منظور کرنے پڑے۔ پھر ایکشن کمیٹی والوں نے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد مقبوضہ کشمیر کے مہاجریں کے لیے آئین ساز اسمبلی میں 12 نشستیں مختص ہیں انھیں ختم کیا جائے۔

 گزشتہ ہفتے مظفرآباد میں پھر دھرنا دینے کے لیے اپیل کی گئی۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 11 افراد جاں بحق ہوئے۔ وزیر اعظم کو جو غیر ملکی دورہ پر تھے اس صورتحال کا اندازہ ہوا تو ایک اعلیٰ سطح وفد مظفر آباد بھیجا گیا، یوں جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان 90 فیصد مطالبات منظورکرنے پر اتفاق ہوا۔ بی بی سی کی اردو ویب سائٹ کے مطابق جو مطالبات حکومت نے منظورکیے ان میں سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ مہاجرین کی نشستیں حتمی فیصلے تک اس وقت تک معطل رہیں گی جب تک خصوصی قانونی کمیٹی اس بارے میں اپنی رائے نہ دے۔

 حکومت نے وزراء اور انتظامی افسروں کی تعداد کم کرنے، احتساب بیوروکی تنظیمِ نو، تعلیمی اداروں میں اوپن میرٹ، اسلام آباد میں گرفتار ہونے والے مظاہرین کی رہائی، نئے تعلیمی بورڈ کے قیام اور میرپور میں جدید ایئر پورٹ کی تعمیر جیسے دیگر مطالبات بھی منظورکیے ہیں۔ یوں لوگوں کو جدوجہد کا ایک نیا ماڈل ملا ہے۔  

Similar Posts