وہ اس گلدستے کو بکھیرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتا رہتا ہے مگر اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان آج بھی قائم و دائم ہے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بدقسمتی یہ رہی کہ آزادی کے بعد ہمیں ایسے حکمران میسر آئے جنھیں یہ ملک پلیٹ میں رکھا ہوا ملا، وہ اس کی قدر نہ کر سکے۔ آٹھ دہائیوں کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے یہ قافلہ چلا تھا۔ قافلے کے ساربان بدلتے رہے، مگر سفر کٹ نہ سکا۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں م ہے، تحریکِ انصاف مسلسل تین انتخابات سے خیبر پختونخوا پر حکمران ہے، پنجاب میں کچھ وقفے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے پھر اقتدار سنبھال لیا ہے، جب کہ بلوچستان میں مختلف جماعتوں پر مشتمل نمایندہ حکومت موجود ہے۔ وفاق میں بھی مسلم لیگ (ن) برسراقتدار ہے، جسے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور چند دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا سیاسی اتحاد بلاشبہ ایک غیر فطری اتحاد ہے۔ اس غیر فطری اتحاد کی واحد وجہ ایک تیسری جماعت ہے جسے اقتدار سے دور رکھنے کے لیے یہ اتحاد بنایا گیا۔ یہ اتحاد اب تک ضرورتوں کا محتاج ہے اور سر دست ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ یہ غیر فطری اتحاد ٹوٹ کر حکومت کا شیرازہ بکھیر دے اور دونوں جماعتیںسیاسی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ یکایک عوام کی عدالت میں چلی جائیں ۔ دوسری جانب پنجاب کی پُرجوش وزیرِاعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف نے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر پیپلز پارٹی کی بے جا تنقید کے جواب میں خاموشی توڑ دی ہے اور پنجاب کی طرف اٹھنے والی انگلی کو توڑنے کا دوٹوک پیغام دیا ہے۔ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان لفظی گولہ باری اور تند و تیز بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا جو تاحال جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیرِاعلیٰ پنجاب سے معافی کا غیر سیاسی مطالبہ سامنے آیا ہے جس کا جواب الجواب ابھی دیا جا رہا ہے۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب ملک کے سینئر سیاستدان میاں نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں جوخود تین بار وزیرِاعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی وطن سے وفاداری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ مگر دونوں پارٹیوں کے ترجمانوں کی حالیہ بیان بازی سے صوبائیت کی بو آنے لگی ہے جو ملکی سیاست کے لیے نیک شگون نہیں۔ ریاست پہلے ہی معاشی اور دفاعی مشکلات میں گھری ہوئی ہے ایسے میں صوبائی بنیادوں پر تقسیم کی باتیں خطرناک ہیں۔
عوام اس لڑائی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جب کہ دشمن ان اختلافات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری جو اپنی اپنی جماعتوں کے اصل فیصلے ساز ہیں، اب تک خاموش ہیں۔ سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا یہ محض ایک نوراکشتی ہے یا اس کے پیچھے کوئی پوشیدہ مقصد پوشیدہ ہے۔ فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ یہ اتحاد فوری طور پر ٹوٹ جائے گا کیونکہ دونوں جماعتیں اس پوزیشن میں نہیں کہ انتخابات میں علیحدہ علیحدہ عوام کے سامنے جا سکیں۔البتہ یہ طے ہے کہ صوبائیت کا کارڈ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب تک محدود کر دے گا جہاں پر اس کو پہلے ہی تحریکِ انصاف کے مضبوط سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔
اگرچہ تحریکِ انصاف کے اندر اختلافات موجود ہیں مگر عوامی سطح پر پارٹی کے بانی کا اثر کم نہیں ہوا۔ایسی صورتحال میں میاں نواز شریف کو چاہیے کہ اپنی سیاسی وراثت کو صرف پنجاب تک محدود نہ کریں بلکہ اسلام آباد کے بڑے منظرنامے پر نگاہ رکھیں۔ خدانخواستہ اگر یہ چبھتی ہوئی بیان بازی اسی رفتار سے جاری رہی تو یہ عوام کے دلوں میں ایسی دراڑ ڈال سکتی ہے جس کا مداوا ممکن نہ رہے۔پہلے ہی ملک کو نئے صوبوں میں تقسیم کرنے کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیںجو موجودہ حالات میں ریاست کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ نئے صوبوں پر مزید معروضات کسی اگلے کالم میں پیش کروں گا۔