امریکا نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا جدید اسٹیلتھ جنگی طیارہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) رواں ہفتے اُس کمپنی کا اعلان کرے گا جو امریکی بحریہ کے اگلے جدید جنگی طیارے ”ایف اے-ایکس ایکس“ (F/A-XX) کو ڈیزائن اور تیار کرے گی۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کے مطابق اس منصوبے کے لیے دو بڑی کمپنیاں ”بوئنگ“ اور ”نارتھروپ گرومین“ ایک دوسرے کے خلاف میدان میں ہیں۔ یہ طیارہ موجودہ “ایف اے-18 سُپر ہارنیٹ کی جگہ لے گا جو 1990 کی دہائی سے امریکی بحریہ میں استعمال ہورہا ہے۔
رائٹرز نے امریکی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ نے گزشتہ جمعے کو اس منصوبے کو آگے بڑھانے کی منظوری دی، اور ممکن ہے کہ امریکی بحریہ اسی ہفتے فیصلہ سنا دے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی چند تکنیکی اور مالی وجوہات کے باعث اس منصوبے میں تاخیر ہوتی رہی ہے، اور ایسا دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔
یہ نیا طیارہ مستقبل کی جنگی ضروریات کے مطابق جدید ترین اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، زیادہ فاصلے تک پرواز، بہتر ایندھن کارکردگی اور بغیر پائلٹ والے ڈرون طیاروں کے ساتھ رابطہ رکھنے کی صلاحیت رکھے گا۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین تیزی سے اپنی پانچویں اور چھٹی نسل کے لڑاکا طیاروں پر کام کر رہا ہے، اس لیے امریکا کے لیے یہ منصوبہ اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم ہے۔
اس منصوبے میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ پینٹاگون اور کانگریس کے درمیان فنڈنگ کا تنازع بھی تھا۔
ابتدا میں محکمہ دفاع نے صرف 7 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مانگے تھے، مگر کانگریس نے پروگرام کو تیز کرنے کے لیے 75 کروڑ ڈالر فراہم کیے اور آئندہ مالی سال کے لیے مزید 1.4 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ بوئنگ یا نارتھروپ گرومین میں سے کوئی ایک کمپنی موجودہ منصوبوں کی وجہ سے یہ نیا طیارہ وقت پر مکمل نہیں کر پائے گی۔
اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق چلا تو نئے F/A-XX طیارے 2030 کی دہائی میں بحری بیڑے کا حصہ بن جائیں گے، جبکہ پرانے F/A-18 سپر ہارنیٹ طیارے 2040 تک استعمال میں رہیں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ امریکا کی دفاعی تاریخ کے سب سے مہنگے منصوبوں میں سے ایک ہوگا، جس پر اربوں ڈالر لاگت آنے کا امکان ہے۔