سویڈن کی شاہی اکیڈمی آف سائنسز نے اعلان کیا کہ یہ انعام عمر یاغی کے ساتھ جاپان کے سوسومو کیتاگاوا اور آسٹریلیا کے رچرڈ روبسن کو مشترکہ طور پر دیا جا رہا ہے۔
تینوں سائنس دانوں کو “میٹل آرگینک فریم ورک (MOFs)” کی ایجاد اور اس میں نمایاں تحقیقی خدمات کے اعتراف میں یہ اعزاز ملا۔
یہ ایوارڈ کیمیائی سائنسز کا سب سے بڑا عالمی اعزاز ہے جس کے ساتھ 1 کروڑ 10 لاکھ سویڈش کرونر (تقریباً 12 لاکھ ڈالر) کی رقم بھی دی جاتی ہے۔
سعودی سائنسدان کون ہیں ؟
1965 میں اردن کے دارالحکومت میں پیدا ہونے والے پروفیسر عمر یاغی ایک فلسطینی ہیں اور فی الوقت امریکا کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلی میں پروفیسر ہیں۔
علاوہ ازیں وہ “برکلی گلوبل سائنسز انسٹیٹیوٹ” کے بانی ڈائریکٹر بھی ہیں اور لارنس برکلی نیشنل لیبارٹری میں تحقیق میں مشغول رہتے ہیں۔
انھوں نے امریکا میں ہی تعلیم حاصل کی اور 1990 میں یونیورسٹی آف الینوائے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو رہنے کے بعد انہوں نے ایریزونا، مشی گن اور یو سی ایل اے جیسی بڑی جامعات میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 2012 سے وہ برکلی سے وابستہ ہیں۔
پروفیسر یاغی کو “ریٹیکیولر کیمسٹری” کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس شعبے نے ایسے کھلے فریم ورک ڈھانچے متعارف کرائے جنہیں گیس ذخیرہ کرنے، توانائی کے تحفظ اور ماحولیاتی ٹیکنالوجیز میں انقلابی اہمیت حاصل ہے۔
وہ متعدد عالمی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں جن میں شاہ فیصل ایوارڈ (2015)، مصطفی پرائز برائے نینو سائنس، البرٹ آئن اسٹائن ورلڈ ایوارڈ آف سائنس اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم کی جانب سے دیا جانے والا فرسٹ کلاس میڈل آف ایکسیلنس (2017) شامل ہیں۔
ان خدمات کے باعث ہی پروفیسر عمر یاغی کو 2021 میں سعودی شہریت دی گئی اور 2024 میں “نوابغ العرب” ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
کیمیائی علوم میں دنیا کے صفِ اول کے محقق سمجھے جانے والے عمر یاغی 1998 سے 2008 تک دنیا کے بہترین سائنس دانوں کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر بھی رہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ایک سعودی شہریت رکھنے والے سائنس دان کو کیمیا کا نوبیل انعام ملا ہے، جو نہ صرف ان کے ذاتی سفر بلکہ عرب دنیا کے سائنسی میدان میں تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔