ماسکوکانفرنس اعلامیہ، اہم سنگِ میل

0 minutes, 0 seconds Read
روس میں افغانستان سے متعلق ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ کا ساتواں اجلاس اختتام پذیر ہوگیا۔ دس ممالک کے گروپ نے افغانستان اور ہمسایہ ممالک میں کسی بیرونی فوجی انفرا اسٹرکچر اور اڈوں کے قیام کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے خطے کے دیگر ممالک کے درمیان تجارتی و معاشی تعلقات، سرمایہ کاری کے مواقع اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا ۔

اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ افغان سرزمین کسی ہمسایہ یا دیگر ممالک کے لیے خطرہ نہ بنے۔

روس میں منعقد ہونے والا ساتواں علاقائی اجلاس اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل تھا کہ پہلی بار طالبان حکومت کے وزیر خارجہ نے اس میں شرکت کی۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے جب افغانستان کی داخلی صورتحال اب بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔

طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ کابل میں عملاً طالبان ہی حکمران ہیں اور ان کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ طور پر بات چیت اب ناگزیر بن چکی ہے۔ طالبان کی حکومت کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دینا اور خاص طور پر وزیر خارجہ کی سطح پر ان کی شمولیت، اس بات کا اشارہ ہے کہ علاقائی ممالک، خصوصاً روس، افغانستان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے کے راستے پرگامزن ہیں، چاہے باضابطہ سفارتی سطح پر ہی اسے تسلیم نہ کیا گیا ہو۔ اجلاس میں جاری ہونے والے اعلامیے میں کئی اہم نکات کو شامل کیا گیا۔

سب سے اہم بات یہ تھی کہ تمام شریک ممالک نے افغانستان کو ایک خود مختار، متحد اور پرامن ریاست کے طور پر دیکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ بیان بظاہر سادہ لگتا ہے لیکن اس کے اندر ایک گہری سیاسی حقیقت پنہاں ہے۔ یہ بیان طالبان حکومت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر وہ داخلی استحکام، شمولیتی حکومت اور انسانی حقوق کے اصولوں پر عمل کرے تو وہ بین الاقوامی برادری میں جگہ بنا سکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ افغانستان دوسرے ممالک، خاص طور پر اپنے ہمسایہ ممالک کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہ بنے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اجلاس کے اعلامیے میں افغانستان کی معیشت، غربت، صحت اور زراعت جیسے شعبوں پر خصوصی توجہ دی گئی۔

ان تمام نکات کا مقصد افغانستان کو ایک ایسے مقام تک پہنچانا ہے جہاں وہ نہ صرف خود کفیل ہو بلکہ خطے کے لیے ایک پُرامن اور مفید شراکت دار بھی بن سکے۔ افغانستان کی معیشت اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے۔ بین الاقوامی پابندیوں اور اندرونی بدانتظامی نے اسے تقریباً مفلوج کر دیا ہے، ایسے میں علاقائی تعاون اور سرمایہ کاری کے مواقع کی بات کرنا صرف سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک معاشی ضرورت بن چکی ہے۔

دوسری جانب وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان جو تجارتی راہداریوں کا خواب دیکھا جا رہا ہے، اس میں افغانستان ایک مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔ چاہے وہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہو یا پاکستان، ازبکستان اور افغانستان کے درمیان مجوزہ ریلوے منصوبہ، یہ تمام منصوبے افغانستان کے بغیر ممکن نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا طالبان حکومت اس قسم کی ذمے داری اٹھانے کی اہلیت رکھتی ہے؟ کیا موجودہ سیکیورٹی صورتحال اس کی اجازت دیتی ہے کہ خطے کے ممالک اعتماد کے ساتھ اپنے منصوبے افغانستان کے ساتھ شیئر کریں؟ ان سوالات کے جوابات وقت ہی دے گا، لیکن اجلاس میں ان نکات پر بات چیت اور طالبان وفد کی موجودگی ایک مثبت اشارہ ضرور ہے۔

اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں اس وقت لاکھوں لوگ بھوک، بیماری اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیمیں یہ کہہ چکی ہیں کہ افغانستان ایک انسانی بحران کی زد میں ہے۔ تاہم، بین الاقوامی برادری نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد امداد کو تقریباً روک دیا یا اس میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ اس تناظر میں، روسی میزبانی میں منعقدہ اجلاس میں اس نوعیت کی اپیل اہمیت کی حامل ہے۔

اجلاس کے دوران دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں پر بھی زور دیا گیا۔ افغانستان کی سرزمین ماضی میں القاعدہ، داعش اور دیگر گروپوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ رہی ہے۔ طالبان نے کئی مواقع پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، لیکن حالیہ مہینوں میں داعش خراسان کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ طالبان کو اب صرف بیانات نہیں، بلکہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ ان کے زیر اثر افغانستان دہشتگردی سے پاک ہے۔

اگرچہ بگرام ایئر بیس کا نام نہیں لیا گیا، تاہم یہ بیان کہ کوئی ملک افغانستان یا اس کے ہمسایہ میں فوجی ڈھانچہ نہ بنائے، درحقیقت امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ممکنہ مستقبل کے عزائم پر ایک پیشگی رد عمل تھا۔ روس اور چین دونوں اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکا خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے افغانستان یا اس کے آس پاس کسی ملک میں فوجی اڈہ قائم کر سکتا ہے۔

اجلاس میں شریک ممالک نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کی ذمے داری ان قوتوں پر بھی ڈالی جو بیس سال تک وہاں موجود رہیں۔ ان کا اشارہ واضح طور پر امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی جانب تھا۔ اجلاس میں شریک ممالک افغانستان کی موجودہ مشکلات کو ماضی کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ قوتیں جو افغانستان کو اس حال تک لائیں، اب اس کی بحالی اور ترقی کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں۔

طالبان کی شرکت کامیابی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ طالبان کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک نیا موقع ہے کہ وہ خود کو ایک سنجیدہ، ذمے دار اور عالمی اصولوں کے تحت کام کرنے والی حکومت کے طور پر منوائیں، لیکن یہ صرف شرکت سے نہیں ہوگا۔ طالبان کو اپنی داخلی پالیسیوں، خاص طور پر انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم، اظہارِ رائے کی آزادی اور شمولیتی حکومت جیسے معاملات میں ٹھوس تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ دنیا کے اکثر ممالک طالبان کے ان دعوؤں پر بھروسہ نہیں کرتے جب تک کہ وہ انھیں عمل میں بدلتے نہ دیکھیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اجلاس میں بھارت کی شرکت نے ایک نئی جہت کو جنم دیا ہے۔

بھارت ماضی میں طالبان کے حوالے سے سخت موقف رکھتا آیا ہے، لیکن حالیہ مہینوں میں اس نے خاموشی سے اپنی سفارتی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے دیے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دونوں کے تعلقات میں تناؤ آیا ہے، خاص طور پر سرحدی کشیدگی، ٹی ٹی پی کی موجودگی اور مہاجرین کے مسئلے کے باعث۔ پاکستان کی شمولیت اور طالبان وفد کے ساتھ موجودگی ایک موقع تھا کہ دونوں ممالک بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے اپنے اختلافات کم کرنے کی کوشش کریں۔ چین کا کردار بھی اس اجلاس میں نہایت اہم رہا۔

چین، جو پہلے ہی طالبان کے ساتھ محدود سطح پر تعلقات استوار کر چکا ہے، افغانستان میں استحکام کو اپنے سی پیک اور بی آر آئی منصوبوں کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔ چین کو تشویش ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے اس کے مغربی مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں علیحدگی پسند تحریکوں کو تقویت نہ ملے۔ یہی وجہ ہے کہ چین طالبان سے مستقل مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ دہشت گرد عناصر کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔

تاجکستان اور ازبکستان جیسے وسطی ایشیائی ممالک کے لیے بھی افغانستان ایک حساس معاملہ ہے۔ یہ ممالک پہلے ہی افغان مہاجرین اور سرحدی سلامتی کے مسائل سے دوچار ہیں۔ ان کا افغانستان کے ساتھ تجارتی اور توانائی کے شعبے میں تعاون ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ طالبان ایک ایسے شراکت دار کے طور پر سامنے آئیں جن پر اعتماد کیا جا سکے۔روس، جو اس اجلاس کا میزبان تھا، اپنی روایتی سفارتکاری اور طاقت کے مظاہرے کے لیے افغانستان کو ایک اہم موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔

روس کی یہ کوشش ہے کہ وہ افغانستان کے معاملے میں امریکا کے متبادل کے طور پر سامنے آئے اور علاقائی طاقتوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرے جو مغربی اثر سے آزاد ہو۔ روس طالبان کو بین الاقوامی سطح پر جگہ دینے کے لیے محتاط مگر مستقل طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ اجلاس اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ افغانستان اب بھی بین الاقوامی سیاست کا مرکز ہے۔ طالبان حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بین الاقوامی قبولیت کے لیے صرف وعدے کافی نہیں، بلکہ عمل کے ذریعے اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔

دوسری جانب، عالمی برادری کو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ طالبان کو مکمل طور پر نظرانداز کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں، اگر افغانستان میں استحکام لانا ہے، تو اس میں طالبان کی شمولیت ناگزیر ہے۔

 یہ اجلاس مستقبل کے لیے ایک اہم سنگِ میل بن سکتا ہے، بشرطیکہ اس میں کی جانے والی باتیں محض کاغذی نہ رہیں، بلکہ ان پر عمل درآمد کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ طالبان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ عالمی برادری کو عملی اقدامات سے یقین دلائیں کہ وہ بدل چکے ہیں اور بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے تحت ایک ذمے دار ریاست بننے کے لیے تیار ہیں، جب کہ دنیا کے لیے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ کس حد تک اپنے سیاسی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک عملی اور مؤثر افغان پالیسی تشکیل دے سکتی ہے۔ یہی توازن اگر قائم ہو جائے تو افغانستان نہ صرف خود سنبھل سکتا ہے بلکہ پورے خطے کے لیے ترقی اور امن کا ضامن بھی بن سکتا ہے۔

Similar Posts