امن معاہدہ، امید کی کرن

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پاگیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کردیا، معاہدے کے پہلے مرحلے کے نفاذ کے بعد صیہونی ریاست غزہ پر دوبارہ حملے نہیں کرے گی، معاہدے کے تحت غزہ سے قابض افواج کا جزوی انخلا ہوگا۔

معاہدے کا اعلان ہوتے ہی غزہ سمیت فلسطین بھر میں ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے، فلسطین بھر میں جشن کا سماں رہا، اسرائیل میں قیدیوں کے اہلخانہ بھی سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی سے جھومتے رہے، دوسری جانب اسرائیل کے دائیں بازو کے انتہا پسند وزیر اتمار بن گویر نے وزیرِاعظم نیتن یاہو کو سخت انتباہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حماس کو مکمل طور پر ختم نہ کیا گیا تو ان کی پارٹی حکومت گرانے کے لیے ووٹ دے گی۔

 مشرقِ وسطیٰ کی پیچیدہ اور طویل جنگی فضا میں بالآخر ایک لمحہ سکون نے جنم لیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان شرم الشیخ، مصر میں ہونے والے مذاکرات کے بعد جو ابتدائی جنگ بندی معاہدہ طے پایا ہے، وہ نہ صرف غزہ کے باسیوں کے لیے ایک امید کی کرن ہے، بلکہ پوری دنیا کے لیے بھی امن کی جانب ایک نیا قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسا خطہ، جو دہائیوں سے خون، بارود اور تباہی کی آماجگاہ بنا رہا، وہاں اگر فریقین کسی معاہدے پر متفق ہو جائیں تو یہ بلاشبہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان اور قطر کی جانب سے اس کی تصدیق نے اس معاہدے کو بین الاقوامی ضمانت عطا کی ہے۔ حماس نے بھی واضح الفاظ میں اسے مکمل جنگ کے اختتام سے تعبیر کیا ہے۔ معاہدے کے تحت نہ صرف غزہ پر جاری حملے رکنے کی ضمانت دی گئی ہے بلکہ انسانی بنیادوں پر امدادی سامان کی ترسیل، قیدیوں کا تبادلہ، اور قابض افواج کے جزوی انخلا جیسے نکات بھی شامل ہیں۔

یومیہ چھ سو امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت ایک بڑی انسانی پیش رفت ہے۔ حماس کی قید میں موجود بیس اسرائیلیوں کے بدلے دو ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی، جن میں عمر قید بھگتنے والے ڈھائی سو سے زائد قیدی بھی شامل ہیں، ایک ایسا تبادلہ ہے جو ماضی میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں فلسطین بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، سڑکوں پر جشن، نعرے، خوشی کے آنسو اور اسرائیل میں بھی قیدیوں کے اہلِ خانہ کی مسرت ایک زندہ منظر نامہ پیش کر رہی تھی تاہم، اس امید افزا منظرنامے کے ساتھ کچھ سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ جنگ بندی دیرپا ثابت ہوگی یا ماضی کی طرح محض ایک وقتی وقفہ؟ کیونکہ ابھی معاہدے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسرائیلی طیاروں کی بمباری نے دوبارہ 29 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ یہ اَمر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد محض کاغذوں کی حد تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ زمینی سطح پر بھی اس کے اثرات نظر آنا لازم ہیں۔

اسرائیلی سیاست میں بھی اس معاہدے کو لے کر شدید اندرونی کشمکش جنم لے چکی ہے۔ اسرائیل کے انتہا پسند وزیر اتمار بن گویر نے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو کھلی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حماس کو مکمل طور پر ختم نہ کیا گیا تو ان کی جماعت حکومت سے الگ ہو جائے گی۔ ان کا یہ موقف نہ صرف اسرائیل کی داخلی سیاست کو جھنجھوڑ رہا ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ پیغام دے رہا ہے کہ اسرائیل کی اندرونی تقسیم امن کے کسی بھی معاہدے کو سبوتاژ کر سکتی ہے۔

معاہدے کے نفاذ میں قطر اور امریکا کی ضمانت، ترکیہ کا ٹاسک فورس میں شامل ہونے کا عندیہ اور مصر کی میزبانی یہ ثابت کرتی ہے کہ عالمی قوتیں اس بار فلسطین کے معاملے پر محض تماشائی کا کردار ادا کرنے کے بجائے عملی طور پر شریک ہونے کے لیے تیار ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کہ ایران بھی اب امن کا خواہاں ہے، ایک حیرت انگیز اور قابلِ غور بات ہے۔

ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ’’ جنگ ختم ہوچکی ہے‘‘ ایک نعرے سے زیادہ اگر حقیقت میں ڈھلتا ہے تو یہ ان کی صدارتی سیاست کے لیے بھی ایک اہم کامیابی ہوگی۔حماس کے رہنماؤں نے بھی اس معاہدے کو فلسطینی عوام کے دیرینہ حقِ خود ارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کے لیے ایک سنگِ میل قرار دیا ہے۔ حسام بدران نے کہا کہ دنیا اب اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ فلسطینی قوم اپنی سرزمین پر آزادی اور وقار کے ساتھ جینے کی حقدار ہے۔

یہ بیان ایک طرف عالمی رائے عامہ کی بدلتی فضا کی عکاسی کرتا ہے تو دوسری جانب یہ حماس کے رویے میں بھی ایک مثبت تبدیلی کا اشارہ ہے۔اس امن معاہدے کے نتیجے میں حماس کے غیر مسلح ہونے اور غزہ کی حکومت کے خدوخال طے پانے کا عمل ابھی باقی ہے، مگر ابتدائی طور پر فلسطینی دھڑوں کی جانب سے غزہ کے انتظام سنبھالنے کے لیے 40 ناموں پر مشتمل فہرست پیش کیا جانا، اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ اب فلسطینی سیاسی دھارے بھی قومی یکجہتی کے لیے سنجیدہ ہو چکے ہیں۔

اسرائیل کے اندر موجود شدت پسند طبقے کی سازشیں، نیتن یاہو کی کمزور سیاسی پوزیشن، اور امریکی انتخابات کے تناظر میں ٹرمپ کی سیاسی چالیں، سب مل کر اس معاہدے کے مستقبل پر سوالیہ نشان قائم کرتی ہیں۔ دنیا ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ غزہ کی تباہ کاریوں، ہزاروں بے گھر انسانوں اور ہولناک جانی نقصانات کے بعد، ایک امن معاہدے کی راہ میں اب ہلکی سی کرن نظر آ رہی ہے، مگر اس راہ میں سب سے بڑا خطرہ وہ انتہا پسند قوتیں ہیں جو امن کا خواب ٹس سے مس نہیں ہونے دیں گی۔

ان کی سازشیں، معاہدے کی شکنوں میں دھندلی چھوڑی گئی قراردادوں میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں یقیناً عروج پر ہوں گی۔ یہ غور طلب حقیقت ہے کہ امن کا راستہ آسان نہیں ہوتا۔ تاریخ خود ہمیں بتاتی ہے کہ ہر امن معاہدہ، چاہے وہ جزوی ہو یا مکمل، انتہا پسندانہ عناصر کی مخالفت سے دوچار رہا ہے۔ جب پہلے فلسطینی، اسرائیلی تصادم کی تاریخ کو دیکھیں، جیسے اوسلو معاہدے کے بعد، کچھ گروپوں نے اس عمل کو قبول نہ کیا اور خود فدائیانہ حملوں اور دہشت گرد کارروائیوں کے ذریعے معاہدے کو پسِ پشت ڈالنے کی کوشش کی۔

 آج بھی جو امن معاہدہ زیرِ گفتگو ہے، وہ انھی طاقتوں کی آزمائش ہے۔ یہ خیال کرنا کہ صرف اسرائیل اور حماس کی رضامندی ہی کافی ہے، سراسر غلط فہمی ہے۔ عملدرآمد کے دوران کئی معاملات آئیں گے جن پر اختلاف یا تضاد پیدا ہو سکتا ہے۔ اس معاہدے کی کامیابی کا انحصار صرف دو فریقوں کی نیت پر نہیں بلکہ تیسرے اور چوتھے عوامل پر بھی ہے جیسے خطے کے عرب ممالک، عالمی طاقتیں، مغربی ممالک اور اقوامِ متحدہ۔ یہاں بات صرف فوجی اور سفارتی چالوں کی نہیں ہے، اس میں اخلاقی و انسان دوست پسِ منظر بھی ہے۔

یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے۔ کیا حالیہ معاہدہ، جو کہ پہلے مرحلے کی فائر بندی اور قیدی تبادلے پر مشتمل ہے، انتہا پسندوں کے لیے ایک سبوتاژ کا موقع بن جائے گا؟ جواب ’’ ہاں‘‘ ہے، اگر ہم ہوشیار نہ ہوں تو یہی صورت بن سکتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ معاہدے کی ہر شق کو شفاف، باقاعدہ اور وقتاً فوقتاً نظرِ ثانی کے نظام سے مربوط کیا جائے۔ عالمی اداروں، عرب ممالک، یورپی یونین، امریکا، روس اور چین کو مشترکہ نگرانی کا دائرہ کار بنانا ہوگا۔

اقوامِ متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا کہ کوئی فریق اپنی ذمے داری سے راہ فرار اختیار نہ کرے ۔ اس کے علاوہ فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب صرف الفاظ کا بیان نہیں، بلکہ عملی منصوبے اور مرحلہ وار نفاذ کا مطالبہ ہے۔ معاہدے کی کامیابی اس وقت ہوگی جب غزہ اور مغربی کنارے ایک متحد ریاست کے تحت آئیں، جب ان کی حکومت کو بین الاقوامی تسلیم اور مالی، انتظامی و سیکیورٹی تعاون ملے۔ اگر کوئی ملک یا طاقت اس معاہدے کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو اس پر عالمی دباؤ لاگو ہونا چاہیے۔ ہر قسم کی عسکری، مالی، سیاسی یا مواصلاتی مداخلت کی مذمت ہونی چاہیے اور مشترکہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ معاہدے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

جہاں تک ممکن ہو، فریقین کو بین الاقوامی عدالت انصاف، انسانی حقوق کمیشن اور دیگر قانونی فورمز کے دائرے تک لایا جائے تاکہ کسی بھی خلافِ معاہدہ حرکت کا قانونی جواب ممکن ہو۔یہ کہنا کہ امن معاہدے کو نافذ کرنا آسان ہے، ظلم ہوگا۔ مگر یہ کہنا کہ وہ ناممکن ہے، غیر منصفانہ ہوگا۔ انسانی تاریخ نے یہ سکھایا ہے کہ صلح و آشتی کی راہ مشکل مگر ممکن ہوتی ہے، اگر نیک نیتی، مسلسل تعمیل اور عالمی تعاون موجود ہوں۔ اگر دنیا واقعی مخلص ہے، تو اسے صرف معاہدہ پر دستخط کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ اس کی حفاظت، اس کا نفاذ، اور اس کی ترقی کے لیے عملی اقدام اٹھانا ہوگا۔

 فلسطینی عوام نے صبر اور قربانی کی داستانیں لکھی ہیں۔ ان کا حق ہے کہ وہ آزاد، خود مختار اور باعزت ریاست کی حیثیت سے زندہ رہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی آواز کو ضایع نہ ہونے دیں، ان کے حقِ خودارادیت کے خواب کو حقیقت بنانے میں شانہ بشانہ ہوں اور انتہا پسندوں کی کیچڑ اڑانے والی حرکتوں کو روکیں۔ امن صرف ایک فیصلہ نہیں، بلکہ مسلسل سنجیدہ جدوجہد کا نام ہے۔ اگر سب مل کر اسے سنبھالیں، تو مستقبل میں فلسطین ایک آزاد، خود مختار اور پرامن ریاست بن سکتا ہے، بلاشبہ وہ دن قابلِ دید ہو گا۔

Similar Posts