کراچی مت جائیو

دو عشرے قبل اندرون ملک سے جب وہ کسی مجبوری یا کام سے کراچی آتا تھا تو اس کے عزیز و اقارب اور گھر والے پریشان ہو جاتے تھے اور اسے کراچی نہ جانے کا کہتے تھے ، شہر قائد میں رہنے والے باہر کے عزیزوں اور دوستوں کو کراچی میں اپنی شادی و دیگر تقریب میں مدعو کرتے ہوئے کتراتے تھے کہ خدا نخواستہ انھیں کراچی میں کچھ ہو گیا تو الزام ان پر ہی آئے گا۔

مجبوری میں کراچی جانے والے کی بحفاظت واپسی کی دعائیں کی جاتی تھیں اور کراچی آنے والے کو جلد واپسی، گھر سے زیادہ دیر باہر رہنے اور اپنا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی جاتی تھی اور کراچی جانے والوں کا صدقہ دیا جاتا تھا اور واپسی پر شکرانے کے نوافل ادا کیے جاتے تھے اور واپسی تک اس کی خیر سے واپسی کی دعائیں کی جاتی تھیں۔

اس وقت کراچی میں اسٹریٹ کرائم اور چوری و ڈکیتی کی وارداتیں کم اور دہشت گردی، لسانی سیاسی خونریزی و قتل و غارت گری عروج پر تھی اور دنیا بھر میں کراچی ایک انتہائی غیر محفوظ شہروں میں شمار ہوتا تھا جس کا ذمے دار ایک سیاسی پارٹی سمجھی جاتی تھی۔

اسی جماعت کے اقتداری دور میں کراچی میں سالوں امن بھی رہا اور ترقی بھی ہوئی جس پر اس جماعت کے قائد کا دعویٰ بھی تھا کہ ہماری پارٹی بدامنی کے خلاف ہے اور دیگر لوگ ہم پر دہشت گردی کا غلط الزام لگا کر ہمیں بدنام کرتے ہیں مگر حقیقت یہ تھی کہ کراچی میں سیاسی بنیاد پر بدامنی رہی اور دہشت گردی میں روزانہ لوگ مارے جاتے اور مرنے والوں کی مارنے والوں کی آپس میں کوئی دشمنی بھی نہیں تھی اور بے گناہ افراد سرعام مار دیے جاتے تھے۔

 کراچی میں دہشت گردی اور بدامنی میں غیر مقامی افراد کے ملوث ہونے یا جان بوجھ کر کراچی کو غیر محفوظ رکھنے کے الزامات بھی لگتے تھے اور کراچی میں پیپلز پارٹی دور میں جو آپریشن ہوا تھا اس میں رعایت نہیں کی گئی۔ یہ حالات بھی رہے کہ تھانوں کے دروازے بند رکھے جاتے تھے اور پولیس اہلکار چھپ کر شہر میں نکلتے تھے اور پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ اکتوبر 2025 میں بھی جاری ہے۔

 پیپلز پارٹی کو سندھ میں 17 واں سال چل رہا ہے مگر سندھ حکومت کراچی میں امن نہیں قائم کر پا رہی اورکراچی میں اب سیاسی دہشت گردی تو نہیں بدامنی، اسٹریٹ کرائم عروج پر ہیں، مگر سندھ حکومت اسٹریٹ کرائم پر بھی قابو نہیں کر رہی ہے۔

مگر کراچی میں یہ حالات ہیں کہ اس سال ستمبر میں 51 شہری قتل ہو چکے، اسٹریٹ کرائم، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی چوری اور چھینے جانے کے واقعات، کھلے عام دن دیہاڑے اب گلیوں میں بھی ڈکیت دن دیہاڑے دندناتے پھر رہے ہیں موبائل خواتین سے چھین کر اور انھیں لوٹ کر فرار ہونے والے جرائم پیشہ عناصر کھلے عام وارداتیں کر رہے ہیں مگر پکڑے نہیں جاتے۔

کراچی میں اب حکومت کے علاوہ لوگوں نے بھی سی سی ٹی وی کیمرے لگا رکھے ہیں جن میں ان جرائم کرنے والوں کی تصاویر اور چہرے صاف پہچانے جاتے ہیں اور پولیس انھیں پکڑنے میں مکمل ناکام ہے جس پر لوگ حیران ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ اگر حادثے میں ڈمپر و ٹینکر جلانے والے ملزموں کو پولیس کیمروں میں شناخت کر کے پکڑ لیتی ہے تو اسٹریٹ کرمنل کیوں نہیں پکڑے جا رہے جن کی تصاویر اور چہرے سوشل میڈیا پر صاف نظر آتے ہیں مگر وہ گرفت میں نہیں آ رہے وہ محفوظ کیوں ہیں؟

پولیس انھیں کیوں نہیں پکڑ رہی؟ کیا پولیس ان سے خوفزدہ ہے یا جان بوجھ کر انھیں نہیں پکڑا جا رہا۔ بیرون ملک سے آنے والے افراد کراچی ایئرپورٹ سے اپنے گھر نہیں پہنچ پاتے اور راستے میں لوٹ لیے جاتے ہیں، یہ سلسلہ سالوں سے جاری ہے ایئرپورٹ سے باہر جرائم پیشہ عناصر ان کے منتظر رہتے ہیں اور جہاں موقعہ ملا انھیں لوٹ لیتے ہیں تو ایئرپورٹ کے باہر پولیس کیوں ان کی نگرانی نہیں کر رہی اور ان کے راستوں میں پولیس چیکنگ بھی کرتی ہے مگر انھیں اکثر چیک نہیں کیا جاتا۔

حالت یہ ہے کہ اندرون ملک سے آنے والے متعدد افراد اپنے گھروں کے قریب لوٹے اور مزاحمت پر مارے جا چکے ہیں۔ کراچی میں لوگ گھر سے باہر نکلتے ہوئے سستے موبائل لے کر نکلتے ہیں، خواتین اپنے بیگ غیر محفوظ سمجھتی ہیں، خواتین سے سر عام بیگ ہی نہیں چھینے جاتے بلکہ نہ دینے پر ان پر تشدد بھی ہونے لگا ہے۔

کاٹی کے صدر محمد اکرام کا کہنا ہے کہ کراچی کے تاجروں اور صنعتکاروں کو مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔ کئی افراد کو بھتے کی پرچیاں گولیوں کے ساتھ بھیجی جا رہی ہیں مگر لوگ خوف کے باعث شکایات درج نہیں کرا رہے۔

رواں سال بھتہ خوری کے پھر بھی 96 کیس رپورٹ ہوئے۔ شہر میں بھتہ خوری کے نیٹ ورکس مختلف گروپس چلا رہے ہیں جن سے تاجر اور صنعتکار غیر محفوظ ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کرے کیونکہ بھتہ خوروں کی وجہ سے سخت خوف و ہراس ہے۔ فیکٹری مالکان خوف کے سائے میں کام کر رہے ہیں۔

کراچی سے صنعتیں اور سرمایہ باہر منتقل ہو رہا ہے۔ لوگ کاروبار کے لیے کراچی آنا کم ہو گئے ہیں کیونکہ وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ کراچی کے شہری اپنے گھروں کے گیٹ تک محفوظ ہیں، نہ خواتین گلیوں میں نکل پا رہی ہیں مگر کراچی انتظامیہ پر اثر ہے نہ سندھ حکومت کو فکر سب اسٹریٹ کریمنلز بے قابو اور شہری بے بس تو یہ سلسلہ کب رکے گا؟

Similar Posts