ایک امریکی مصنف میک آئیور (Maciver) لکھتا ہے کہ ’’ سیاسی جماعتوں کے بغیر اصول اور منشورکا باقاعدہ بیان ممکن نہیں ہے۔ پالیسی کا بالترتیب ارتقا نہیں ہوگا۔ آئینی طریقے سے پارلیمانی انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے اور نہ ہی تسلیم شدہ ادارے ہوں گے جن سے سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کر سکیں۔‘‘
ایک صحت مند جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں سیاسی جماعتوں کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے،کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں ترقی و کامیابی کا دار و مدار عوام کے اطمینان اور متحرک سیاسی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتیں عوام میں اپنے اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر عوام میں سیاسی شعور بیدار کرکے ان میں سیاسی بصیرت اور سمجھ بوجھ پیدا کرتی ہیں، سیاسی اقتدار، جمہوری روایات اور نظم و ضبط کی پابندی کا سلیقہ اور قرینہ سکھاتی ہیں جس سے قابل، ذہین اور مثالی قیادت کا وجود عمل میں آتا ہے جو نہ صرف اپنی سیاسی جماعت کو منظم و متحرک رکھتا ہے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کے فروغ اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
سیاسی جماعتیں حزب اختلاف میں ہوں یا حزب اقتدار میں، ہر دو صورت میں تحمل، برداشت، مثبت سوچ، جمہوری اقدار، پارلیمانی روایات آئین و قانون کی پاسداری اور سیاسی استحکام کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کرتی ہیں جس سے صحت مند جمہوری نظام کو فروغ و استحکام حاصل ہوتا ہے۔
ہماری قومی سیاست میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے دور اقتدار تک اصولوں اور نظریے کی سیاست کا وجود قائم رہا ہے۔ قائد کی وفات کے بعد پاکستان کی بانی سیاسی جماعت مسلم لیگ انتشار اور بحران کا شکار ہوگئی۔
قائد اعظم کے سیاسی اصولوں و نظریات کو مفادات کی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مسلم لیگ اعلیٰ دماغی قیادت سے محروم ہوگئی اور مسلم لیگ کی باگ ڈور ایسے سیاسی بونوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو سیاسی نظریے، اصولوں، عوامی فلاح و بہبود اور حب الوطنی کے جذبے سے عاری تھے۔
قیام پاکستان کے بعد سے آج تک مسلم لیگ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر دھڑے بندیوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔ مسلم لیگ کے زوال سے سیاسی بحرانوں نے جنم لیا، ہر لیگی دھڑے نے ایک سیاسی جماعت کی شکل اختیار کرکے آمرانہ و حاکمانہ رجحانات کو فروغ دیا۔
ملک کی سیاست جمہوریت کے بجائے سیاسی آمریت کی راہ پر چل پڑی۔ ملک سیاسی آمریت سے عسکری آمریت کی آغوش میں چلا گیا، نتیجتاً 1971 کو قائد اعظم کا پاکستان دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے بنائی۔ ملک کو 1973 میں ایک متفقہ آئین دیا، ایٹمی قوت بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا لیکن مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ افہام و تفہیم سے سیاسی معاملات سلجھانے میں ناکام رہے۔
نتیجتاً انھیں اقتدار سے بے دخل کردیا گیا اور پھانسی ان کا مقدر بنی۔ بعدازاں میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کا جنم ہوا جس کی بنیاد پنجاب کی سیاست بنی، ادھرذوالفقارعلی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے سندھ کی سیاست سے آغاز کرکے پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان تک اپنی سیاسی جماعت پی پی پی کا دائرہ وسیع کردیا۔
دونوں سیاسی جماعتوں کی سیاست کی بنیاد ایک دوسرے کی مخالفت پر قائم چلی آ رہی ہے۔ آپ میاں نواز شریف سے لے کر شہباز شریف اور مریم نواز تک اور بے نظیر بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو تک کے ماضی قریب و بعید کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں، صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے جنم اور اس کے بانی کی مخالفت میں وقتی طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں ’’ سیزفائر‘‘ کرایا گیا، جسے دونوں نے اپنی سیاسی بقا کی خاطر بادل نخواستہ قبول کر لیا اور مخلوط حکومت بنا لی، لیکن دلوں کے اندر دبی مخالفت چھپانے میں ناکام رہے جس کا کھلا اظہار سامنے آگیا۔
سیاسی بیانات کی تلخی نے دونوں جماعتوں کے درمیان پھر سے خلیج پیدا کردی ہے۔ صدر آصف زرداری نے وزیر داخلہ محسن نقوی کو ’’ سیز فائر‘‘ کا ٹاسک سونپا ہے۔ پیپلز پارٹی مریم نواز سے معافی کا مطالبہ کر رہی ہے جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب معافی پر آمادہ نہیں کہ وہ پنجاب کے حقوق کی بات پر کیوں معافی مانگیں۔
بلاول بھٹو نے 18 اکتوبر کو پارٹی کی ای سی سی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں (ن) لیگ سے کشیدگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر صورت حال نہایت کشیدہ تھی، سندھ میں شدید غم و غصہ تھا تو آصف زرداری نے ’’ پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ توقع یہی ہے کہ وزیر داخلہ کے توسط سے ’’ سیز فائر‘‘ کا پیغام بھیجا جائے گا اور دونوں پارٹیاں پرانی تنخواہ پر کام کرتی رہیں گی۔