لاہور میں سڑکوں کی کھدائی، سیوریج لائنوں کی تعمیر سے اسموگ میں اضافے کا خدشہ

لاہور کے مختلف علاقوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں نے جہاں شہری سہولیات میں بہتری کی امیدیں پیدا کی ہیں، وہیں سڑکوں کی کھدائی، سیوریج لائنوں کی تعمیر اور ناقص حفاظتی انتظامات کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ان منصوبوں کے دوران اڑتی دھول، مٹی اور جمع سیوریج کا پانی نہ صرف شہری زندگی کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق یہ صورتحال اسموگ میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

قائداعظم انٹرچینج سے واہگہ بارڈر تک جی ٹی روڈ کی دونوں اطراف سیوریج لائن کی تنصیب کا کام کئی مہینوں سے جاری ہے۔ مقامی آبادی اس منصوبے کو علاقے کے دیرینہ مسائل کے حل کے طور پر دیکھ رہی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ تعمیراتی سرگرمیوں کے دوران احتیاطی اقدامات نہ ہونے سے دھول مٹی کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

مقامی رہائشی علی حمزہ، عبدالمجید اور ذوالفقار علی کے مطابق جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ کھدائی اور ملبے کے ڈھیر کی وجہ سے روزمرہ زندگی متاثر ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ’’ہم حکومت کے اس منصوبے کے حق میں ہیں لیکن اڑتی گردوغبار اور بدبودار پانی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں، خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کو سانس کے امراض کا سامنا ہے۔‘‘

ایک اور شہری غلام عباس نے تجویز دی کہ تعمیراتی علاقوں میں باقاعدگی سے پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے تاکہ گردوغبار کم ہو، اور جب تک سیوریج کی نئی لائن مکمل نہیں ہوتی، پرانے نکاسی کے نظام کو متبادل طور پر فعال رکھا جائے تاکہ پانی جمع نہ ہو۔

صرف جی ٹی روڈ ہی نہیں، بلکہ سمن آباد، شاہدرہ، اقبال ٹاؤن اور جوہر ٹاؤن جیسے دیگر علاقوں میں بھی ترقیاتی کام جاری ہیں۔ بیشتر مقامات پر ٹھیکیداروں کی جانب سے محکمہ تحفظ ماحولیات کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ نہ کسی جگہ حفاظتی گرین کپڑا لگایا گیا ہے اور نہ ہی ای پی اے کلیئرنس کے بورڈ آویزاں ہیں۔

ادارہ تحفظ ماحولیات کے مطابق ایسے منصوبوں پر ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے ٹھیکیداروں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، تاہم شہر میں بیک وقت درجنوں مقامات پر جاری کام کے باعث نگرانی ایک چیلنج بن چکی ہے۔

دوسری جانب، اسموگ نگرانی اور پیشگوئی کے نظام کے مطابق اتوار کے روز لاہور کا فضائی معیار حساس افراد کے لیے غیر صحت بخش ریکارڈ کیا گیا۔ صبح کے اوقات میں ایئرکوالٹی انڈکس 175 تک پہنچ گیا جبکہ دن بھر کی اوسط سطح 155 رہی۔

ماہرین کے مطابق کم ہوا کی رفتار (1 تا 8 کلومیٹر فی گھنٹہ)، فضائی نمی میں اضافہ اور بارش نہ ہونے کے باعث آلودگی کے بکھراؤ میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ رات کے اوقات میں درجہ حرارت میں کمی، ٹریفک کے بڑھنے اور ایندھن کے زیادہ استعمال نے آلودگی میں مزید اضافہ کیا۔

حکومتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ فضائی معیار کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔ سینئیر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ’’حکومت قانون بنا سکتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد میں حکومت کی معاونت معاشرے کے ہر فرد کا فرض ہے۔ صاف فضا اور صحت مند ماحول صرف سرکاری کوششوں سے نہیں بلکہ عوامی شمولیت سے ممکن ہے۔‘‘

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ترقیاتی منصوبوں میں ماحولیاتی حفاظتی اقدامات کو لازمی قرار نہ دیا گیا تو آئندہ ہفتوں میں لاہور کا فضائی معیار مزید خراب ہوسکتا ہے، خاص طور پر سردیوں کے آغاز کے ساتھ جب سموگ کی شدت بڑھنے لگتی ہے۔

Similar Posts