آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں ملک کی معروف خواتین کھلاڑیوں کو مدعو کیا گیا، جن میں کوہ پیما نائلہ کیانی، مکسڈ مارشل فائٹر انیتا کریم، فٹبال کوچ ملیکہ نور اور مہوش نور شامل تھیں، ان خواتین نے نہ صرف اپنے اپنے شعبے میں فتوحات حاصل کی بلکہ اس سے ملک اوراپنے والدین کا نام بھی روشن کیا۔
انیتا کریم مکسڈ مارشل فائٹر
آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ گفتگو میں سب سے پہلے انیتا کریم مکسڈ مارشل فائٹر نے اپنے کییرئر کے بارے میں بتایا کہ میں نے اسی لیے سخت پروفیشن چنا، کیوں کہ خواتین خود کو کمزور سمجھتی ہیں کہ ہم سے نہیں ہو پائے گا، اسی لیے ہم نے ٹرائی کیا اور الحمداللہ کامیابیاں حاصل کیں۔
انیتا کریم نے کہا کہ مجھے اپنے کام سے بہت پیار ہے، میں اپنا بیسٹ وہاں پر دیتی ہوں۔ میرے بھائی مکسڈ مارش آرٹ کے پانیئر ہیں پاکستانمیں تو انھوں نے نے ہی متعارف کروایا تھا، علی اور احتشام کریم کوچ ہیں، میں نے جب مکسڈ مارش آرٹ اسٹارٹ کیا تھا کوئی بھی خاتون مکسڈ مارشل فائٹر نہیں تھی، ایک سال کی ٹریننگ کے بعد مجھے بین الاقوامی فائٹ ملی تھی لیکن انٹرنیشنل جانے کے لیے بی ہمیں نیشنل طور پر دس سے 15 فائیٹ کرنے پڑتے تھے۔
بین الاقوامی فائیٹ میں ہار گئی تھی کیوں کہ مجھے اتنا تجربہ نہیں تھا۔ تھائی لینڈ میں مجھے ٹریننگ کا موقع ملا تو اس کے بعد میں نے فائیٹ جیتی اور پھر جیتتی رہی۔
تعارف
انیتیا کریم سے عالمی سطح پر پیزا رائی پانے والی مکس مارشل آرٹ فائٹر ہیں، ان کا تعلق ہنزہ سے ہے اور ون واریئر سیریز، واریئر4 سیریز، سیریز 10 اور 5 میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔ انیتا کریم نے مارشل آرٹ اپنے 3 بڑئے بھائیوں سے سیکھا اور پاکستان کی پہلی عالمی سطح پر مکس مارشل آرٹ فائٹر کے طور پر جانی مانی جات ہیں، ایشیا کے سب سے بڑے ایونٹ “ ون چیمپیئن شپ’ میں بھی حصہ لے چکی ہیں ، پروفیشنل ریکارڈ میں آپ پانچ بار جیت چکی ہیں اور بے شمار گولڈ میڈل بھی اپنے نام کر چکی ہیں۔
ملیکہ نور فٹبال کوچ
ملیکہ نور فٹبال کوچ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہنزہ ایسی جگہ ہے جہاں خواتین کو بہت اسپورٹ کیا جاتا ہے جب ہم نے اسٹارٹ کیا تب اس کا اتنا ٹرینڈ نہیں تھا کہ لڑکیوں کو ایسے گھر سے جانے دیں یا وہ کھیلیں۔ لیکن جب اور لڑکیاں آگے آئیں تو ٹرینڈ بن گیا۔
انھوں نے بتایا کہ لڑکیوں کی مینٹل ہیلتھ کے لیے بہت اچھا پے اور ہم اس کی مثال ہیں۔ فٹ بال کھیلنے سے پہلے میں بہت شرمیلی بچی تھی لیکن اب مجھ میں بہت اعتماد ہے۔ لڑکیوں کو مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں سب آتا ہے لیکن اعتامد کی کمی کی وجہ سے ماری جاتی ہیں۔
ملیکہ نور نے بتایا کہ ہنزہ کے لوگوں کو اب معلوم ہوچکا ہے کہ لڑکیوں کو اپنا خیال رکھ کر آگے جانے کی اجازت دی جائے تو وہ آگے چل کر بہت مختلف اور بڑے بڑے کام کر سکتی ہیں اور ہر جگہ نام روشن کر سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گھر والے ساتھ دیتے ہیں لیکن سوسائٹی منع کرتی ہے کہ لڑکیوں کو نہیں کھیلنا چاہیے لیکن والدین ساتھ ہیں تو اور لڑکیاں نام کماتی ہیں اور وہ گلگت کی بیٹی، ہنزہ کی بیٹی، پاکستان کی بیٹی بن جاتی ہے۔
تعارف
ملیکہ نور کا ہنزہ سے تعلق ہے اور فٹبال کی کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے نیشنل وویمن چیمپیئن شپ میں کلیدی کردا نبھایا ہے اور 2010 میں سیف وویمن چیمپیئن شپ میں پاکستانی فٹ بال ٹیم کو جتوایا اوربعد میں پاکستان آرمی وویمن فٹبال جوائن کیا اور 2014 میں نیشنل وویمن فٹبال چیمپیئن شپ ٹرافی جیتی اور ریٹائر ہو چکی ہیں اورآج کل کوچنگ کر رہی ہیں۔
نائلہ کیانی کوہ پیما
کوہ پیما نائلہ کیانی نے آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پہلے سے کھلاڑی تھیں اور پہلے میں سوچتی تھی کہ لوگ پہاڑ پر چڑھتے ہیں، انھیں کیا ملتا ہے جو اپنی جان رسک پر لیتے ہیں۔
نائلہ کیانی نے بتایا کہ جب میں نے شروع کیا تو مجھے تجربے کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ کوہ پیما کتنے مراحل سے گزرتے ہیں تو وہ Experience کرتے کرتے میں آج پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما بن گئی۔
انھوں نے پروگرام میں گفتگو کے دوران بتایا کہ میں نے پاکستان کے 8 ہزار میٹر کے بلند پہاڑ کی سمٹ کی تھی، یہ رسک تھا لیکن بعد میں ریکارڈ بنتے گئے، میں چاہتی ہوں کی اپنی کہانی کے ذریعے باقی لڑکیوں کو متاثر کروں کہ جو بھی ہم کرنا چاہتے ہیں ہم کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آکسیجن کے علاوہ بھی بہت زیادہ رسک ہوتے ہیں، راک فال ہو سکتی ہے، موسم اور کلامئٹ کی وجہ سے ایک پہاڑ پر3 ہفتوں سے 2 ماہ بھی لگ جاتے ہیں اور یہ خطر ناک کام ہے۔
تعارف
کوہ پیما نائلہ کیانی پہلی پاکستانی ہیں جنھوں نے گاشر بروم اول چوٹی سر کی ہے۔ جس کی اونچائی 8 ہزار 35 میٹر ہے۔ نائلہ کیانی دنیا میں 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 11 چوٹیوں کو سر کر چکی ہیں، پاکستان کی نامورکوہ پیما ہیں جنھوں نے ماؤنٹ ایورسٹ اور مکالو جیسی بلند ترین چوٹیاں ہیں ان کو بھی سر کیا ہے۔
مہوش علی سکوئش گولڈ میڈلسٹ
امریکا کے شہر پینسیلوینیا سے پاکستان کی سکوائش گولڈ میڈلسٹ مہوش علی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بدقستی سے ہمارے ملک میں خواتین کھلاڑیوں کو سہولیات زیادہ نہیں ملتیں، جو کہ نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ اس کی وجہ سے وہ لوگ بین الاقوامی سطح پر پرفارم نہیں کر پاتے۔
انھوں نے بتایا کہ مجھے شروع میں مسئلہ تھا یہاں کی ٹریننگ بہت ایڈوانس ہے اس کی وجہ سے میری گیم بہتر ہوئی ہے۔ میرے کوچ کی وجہ سے جو مجھے ٹریننگ کرواتے ہیں، میں امریکا میں ہی ٹریننگ کر رہی ہوں، انشااللہ پاکستان میں اپریل میں آؤں گی،
تعارف
مہوش علی جنھوں نے صرف 15 سال کی عمر میں نوڈیک جونیئر چیمپیئن شپ 2024 میں جیتی اور اس سے پہلے آپ آسٹریلین جونیئر اوپن 17 میں بھی گولڈ میڈل جیت چکی ہیں۔ اس وقت 14 سال کی تھیں وہ انڈر11 اور انڈر 15 میں بھی یہ اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔