پاکستان کے بیرونی قرضے اور واجبات 92.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئے

اسلام آباد: وزارت خزانہ کے ڈیبٹ مینجمنٹ آفس کے مطابق پاکستان کے بیرونی قرضے اور واجبات 31 اگست 2025 تک 92.2 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔

بزنس ریکارڈر کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈیبٹ مینجمنٹ آفس کی جانب سے بتایا گیا کہ پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے میں درمیانی اور طویل مدتی قرضوں کا حصہ 89.1 ارب ڈالر ہے۔ ان میں سے 42.58 ارب ڈالر عالمی اداروں (جیسے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک) سے لیے گئے ہیں جبکہ دوطرفہ قرضوں (ممالک سے براہ راست لیے گئے قرضے) کی مالیت 21.82 ارب ڈالر ہے۔

اجلاس میں پاکستان کے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگراموں کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا گیا۔ کمیٹی نے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ 2008 سے اب تک آئی ایم ایف سے حاصل کیے گئے قرضوں، ان کے استعمال، واپسی اور سود کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے کئی پروگرامز کے تحت مالی معاونت حاصل کی ہے، جن میں سے بیشتر قرضے ملک کے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے لیے گئے۔ تاہم ماہرین کے مطابق یہ قرضے وقتی سہارا تو دیتے ہیں مگر مستقل بنیادوں پر معیشت کو خودمختار بنانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ملک میں قرض لینا معمول بنتا جا رہا ہے، جبکہ ان قرضوں سے چلنے والے منصوبوں کو گروی رکھ کر مزید قرض حاصل کرنا ایک خطرناک رجحان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کا مقصد خود انحصاری ہونا چاہیے نہ کہ ایک ایسا چکر جو ملک کو مسلسل مقروض رکھے۔

یہ بھی انکشاف ہوا کہ بجٹ23-2022 میں ”خصوصی فنڈز“ کے تحت 90 ارب روپے کی مختص رقم کے ذرائع اور استعمال کی مکمل تفصیل ابھی تک واضح نہیں کی گئی۔ سینیٹ کی کمیٹی نے اس پر بھی وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو قرضوں کے استعمال، واپسی، اور سود کی ادائیگی کے نظام میں مکمل شفافیت لانا ہو گی تاکہ نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہو بلکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کی سنجیدگی کو تسلیم کریں۔

Similar Posts