اس کی تازہ ترین مثال اوریا مقبول جان کی خواہش کی شکل میں سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے تاریخ پر تنقید نگاروں کی فہرست میں شامل ہونے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اوریا مقبول جان بعض ایسے موضوعات کو زیربحث لانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ان کی تاریخ سے لاعلمی کا پول کھل جاتا ہے۔
موصوف نے انٹرنیٹ پلیٹ فارم پر وزیراعظم لیاقت علی خان کے امریکی دورے میں بحیثیت معزز مہمان وہاں قیام کے دورانیے اور پاکستان سے آمدورفت پر غیرضروری سوالات اٹھانے کی کوشش کی ہے جو حقائق کے سراسر برخلاف اور ان کی ناواقفیت پر دلالت کرتے ہیں۔
مئی 1950 میں لیاقت علی خان نے امریکی حکومت کی دعوت پر امریکا کا تفصیلی دورہ کیا تھا جو پہلے 24 روز پر مشتمل تھا جس میں بعد ازآں کینیڈا روانگی سے قبل دونوں ممالک کی حکومتوں کے اتفاق رائے سے چند دن کی توسیع کردی گئی تھی، جو سرکاری ریکارڈ پر موجود ہے۔ اوریا مقبول جان اس ریکارڈ کا مطالعہ کر لیتے تو ان کی تشویش کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیاقت علی خان کو بھی ہندوستانی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی طرح وطن سے امریکا آمدورفت کی سہولت امریکا کی جانب سے فراہم کی گئی تھی۔
یہ بات تاریخ کا شعور رکھنے والے بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان اپنے ابتدائی ادوار میں اتنے وسائل نہیں رکھتا تھا کہ قومی خزانہ لیاقت علی خان اور پاکستان کے مکمل سرکاری وفد کے دورۂ امریکا کا بوجھ اٹھا سکتا۔ یہ واضح رہے کہ امریکا کا دورہ پاکستان کی خواہش پر نہ تھا بلکہ امریکی حکومت نے از خود دونوں ممالک کے وزرائے اعظموں کو دورے کی دعوت بشمول سفری سہولیات کے فراہم کی تھی۔
لیاقت کے دورے سے قبل اکتوبر 1949 میں نہرو کا امریکی دورہ بھی اسی طرح طویل اور تفصیلی تھا اور پنڈت نہرو کو بھی انڈیا سے واشنگٹن لے جانے کے لیے جہاز فراہم کیا گیا تھا۔ ایک خاص بات جو دورہ امریکا میں لیاقت علی خان نے امریکی حکام پر واضح کردی تھی وہ یہ کہ پاکستان ایڈ (Aid) کا خواہش مند نہیں ہے بلکہ ٹریڈ (Trade) چاہتا ہے۔ لیاقت علی خان کے یہ الفاظ آج بھی ارباب اقتدار استعمال کرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کا عمل اس پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ راقم کو بعض دانش وروں نے مشورہ دیا تھا کہ اوریا مقبول جان اتنے اہم نہیں ہیں کہ ان کے بیان پر تبصرہ کیا جائے، لیکن راقم نے اس موضوع کو زیربحث لانے کی سعی محض اس لیے کی کہ ریکارڈ کی درستی ممکن ہوسکے۔
راقم الحروف کی اوریا مقبول جان سے بنفس نفیس ملاقات ان کے دور ملازمت میں ہوئی تھی جب وہ پنجاب کی صوبائی حکومت میں انفارمیشن سیکرٹری کے منصب پر فائز تھے اور ’’قائدملت لیاقت علی خان میموریل کمیٹی‘‘ نے لاہور کے شاکر علی میوزیم میں شہید ملت کی تصاویر کی نمائش کا اہتمام کیا تھا۔ شاکر علی اسٹوڈیو کی سربراہ اور پٹوڈی خانوادے سے تعلق رکھنے والی آمنہ پٹوڈی نے صوبائی سیکرٹری کو نمائش کے افتتاح کے لیے مدعو کیا تھا۔ ان کے ساتھ ہونے والی تفصیلی ملاقات میں موصوف نے اس وقت ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ حالیہ تذکرہ ان کے خیالات کی راگنی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اب چوںکہ وزیراعظم لیاقت علی خان سے متعلق من گھڑت سازشی نظریات کی بات ہورہی ہے تو اس موقع پر بحیثیت گورنرجنرل قائداعظم کے اے۔ڈی۔سی بریگیڈیئر نور۔اے۔حسین کے بیانات کا حوالہ دینا ضروری ہوگیا ہے۔ بریگیڈیئر نور مئی 1948 سے 11 ستمبر 1948 قائداعظم کی وفات تک اے ڈی سی کے فرائض سرانجام دیتے رہے جو شاید گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کام کرنے والوں میں طویل ترین میعاد کار ہے۔
معالجین سمیت دیگر افراد اور سب سے زیادہ اے ڈی سی کا وقت گورنر جنرل کے ساتھ ہی زیادہ گزرتا ہے جس کی وجہ سے ان کی معلومات مفصل اور مستندترین شمار ہوتی ہیں۔ بریگیڈیئر نور حسین کو سرکاری ملازمت کی پابندیوں کے باعث ان معلومات کو منظرعام پر لانے کا موقع نہ مل سکا جس کے سبب پاکستان کی تاریخ میں اقتدار کی رساکشی کے کردار کی حیثیت سے معروف، نواب مشتاق احمد گورمانی کے ہم زلف، ڈاکٹر الٰہی بخش کو قائداعظم کی علالت کے دوران زیارت ریزیڈنسی میں گورنر جنرل اور وزیراعظم کے مابین من گھڑت کہانیاں مرتب کرنے کا موقع میسر آیا۔ تاہم فوجی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بریگیڈئیرنور حسین کے تحریر کردہ مواد کی اشاعت سے اصل حقائق سامنے آگئے جن کے مطابق ماری پور ایئرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس آتے ہوئے جب قائداعظم کو دوسری ایمبولنس کی ضرورت پیش آئی تو اس وقت گورنرجنرل کا ملٹری سیکریٹری اور وزیراعظم لیاقت علی خان بھی دوسری ایمبولینس کے ساتھ قائداعظم کے پاس پہنچ گئے تھے۔
قائداعظم کے پاس آنے سے قبل وزیراعظم لیاقت علی خان نے ریاست حیدرآباد دکن پر ممکنہ بھارتی حملے کے پیش نظر کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہوا تھا، جس میں افواج پاکستان کے سنیئرافسران بھی موجود تھے۔ تاہم لیاقت علی خان نے قائداعظم کی ہمراہی اور استقبال کے لیے کے لیے اس ہنگامی اجلاس کو فوری طور پر مؤخر کردیا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بریگیڈیئر نورحسین کی قائداعظم کے بارے میں تحریروں اور اپنے ذاتی مشاہدات کو شائع ہونے سے روکنے کی کوششیں بھی کی گئیں جب کہ مخالفانہ مواد اور کانسپریسی تھیوریز کو مخصوص مفادات کی بنا پر فروغ کیا گیا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح اور شہید ملت لیاقت علی خان کے تعلقات آخری لمحات تک انتہائی خوش گوار اور قائداعظم کی جانب سے مشفقانہ تھے، جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ قائداعظم کی زندگی کی آخری سال گرہ کی تقریب میں محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے مابین کسی غلط فہمی کے نتیجے میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے اپنے منصب سے استعفیٰ گورنر جنرل قائد اعظم کو ارسال کردیا تھا، لیکن قائداعظم نے استعفٰی نامنظور کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اس معاملے کا امورمملکت سے کوئی تعلق نہیں۔
اگر لیاقت علی خان اور قائداعظم کے درمیان کوئی اختلاف ہوتا تو یہ سنہری موقع تھا کہ قائداعظم لیاقت علی خان کا استعفیٰ منظور کرلیتے، تاہم قائداعظم نے جولائی 1948 میں اپنے اعزاز میں پارسی کمیونٹی کی جانب سے کوئٹہ میں دیے جانے والے استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت اور اس کی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی تعریف بھی کی۔ یہ قائداعظم کی آخری تقریب ہے جس میں انہوں نے شرکت کی اور یہ قائداعظم کے انتقال سے محض دو ماہ پہلے منعقد ہوئی تھی۔ اسی طرح لیاقت علی خان قائداعظم کی وفات تک محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان کے وصیت نامے کے امین اور وصی رہے۔ یہاں تک کہ 11 ستمبر 1948 کو قائداعظم کی وفات کے بعد وصی کی حیثیت سے گورنرجنرل کی تنخواہ کا آخری چیک انہوں نے وصول کرکے محترمہ فاطمہ جنا ح کے حوالے کیا تھا۔
ان واقعات کے تذکرے کا مقصد اس گم راہ کن پروپیگنڈے کا سدباب اور اصل حقائق سے آگاہی ہے۔ تاریخ پاکستان اس امر کی گواہ ہے کہ حکم رانوں نے ملک کی مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کے تحت مزید مسخ کرنے کی کوشش کی تاکہ عوام بانیان پاکستان کی فراست، عوام دوستی، سادہ طرززندگی اور اسلوب حکم رانی سے ان کے اطوار کا مقابلہ نہ کر سکے اور حکم رانوں کو اپنے من چاہی طرزِحکم رانی جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ ملی رہے۔