ارشاد خداوندی کا مفہوم: ’’لوگوں سے اپنا رخ نہ پھیرو۔ اور نہ زمین پر اترا کر چلو۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ متکبّر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔‘‘ (لقمان)
قارون، حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کا ہم قوم تھا، مگر وہ اپنوں ہی میں تکبر کرنے لگا ، اﷲ تعالی نے اسے اتنا بھاری خزانہ مرحمت فرمایا تھا کہ ان کی کنجیوں کا بوجھ ہی کئی طاقت ور لوگوں کے سانس پھلا دیتا تھا، جب اس کی قوم نے اسے نصیحت کی کہ اس جاں و چشم اور دولت پر مت اتراؤ کہ اﷲ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن وہ باز نہیں آیا تو پس اﷲ تعالی نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔
جناب عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ اس پر ایک شخص نے پوچھا: آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس بھی اچھا ہو، جوتے بھی عمدہ ہوں، کیا یہ بھی تکبر میں داخل ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ خود جمیل (خوب صورت) ہے اسے جمال و نفاست پسند ہے (یہ کبر نہیں ہے) کبر تو یہ ہے کہ اپنے گھمنڈ کی وجہ سے حق ہی کا انکار کردے اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے لگے۔‘‘ (مسلم)
جناب حارثہ بن وہب رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم:
’’میں تمہیں بتاتا ہوں کہ دوزخ میں کون کون لوگ ہوں گے ، وہاں سب سرکش بخیل اور متکبر ہی ہوں گے ۔‘‘ (متفق علیہ)
جناب ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ تہبند کو از راہ تکبر لٹکانے والے کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
جناب ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: عزت میرا پہناوا، کبریائی میری چادر ہے ۔ ان دونوں کے بارے میں جو بھی مجھ سے جھگڑے گا میں اسے عذاب میں مبتلا کردوں گا۔‘‘ (مسلم)
جناب ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
جنت و دوزخ میں تکرار ہوئی تو دوزخ کہنے لگی: میرے ہاں تو بڑے بڑے جابر اور متکبر لوگ فروکش ہوں گے۔ جنت بولی: میرے ہاں تو ضعیف و نادار لوگ ہی جگہ پا سکیں گے۔ اس بحث کا فیصلہ فرماتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: جنّت ! تُو میری رحمت ہے ، تیرے ذریعے میں جس پر چاہوں گا رحم کروں گا۔ اور اے دوزخ! تُو میرا عذاب ہے، میں جس پر چاہوں گا تیرے ذریعے اسے عذاب دوں گا۔ البتہ تم دونوں کا یہ حق مجھ پر لازم ہے کہ دونوں کو بھردوں گا۔ (مسلم)
جناب ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
ایک شخص (امم سابقہ میں سے) لباس فاخرہ پہنے جی ہی جی میں خوش ہوتا، سر میں کنگھی کیے (بال سنوارے) متکبرانہ چال سے چلا جا رہا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اچانک اسے زمین میں دھنسا دیا اور اب وہ قیامت کے دن تک دھنسا ہی رہے گا۔ (بخاری و مسلم)
تکبر کے چند اسباب :
بہت کم ہی علماء ہیں جو تکبر سے خالی ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے:
’’ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی آفت ہے، تکبر علم کی آفت ہے۔
صوفیائے کرام فرماتے ہیں: جس علم سے تکبر پیدا ہو، وہ علم جہل سے بھی بد تر ہے۔ کیوں کہ حقیقی علم وہ ہے جتنا بڑھے گا خوف الٰہی اتنا ہی بڑھے گا۔ کیوں کہ ارشاد ربانی ہے کا مفہوم ہے: ’’اﷲ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔‘‘
بندوں سے مراد ساری مخلوق و انسان ہیں۔ اس سے معلوم ہُوا کہ اہل علم بہت مرتبے والے ہیں کہ رب تعالی نے اپنی خشیت و خوف ان میں منحصر فرمایا۔ جسے بھی خوف خدا نصیب ہو گا وہ سچے عالموں کے ذریعے مگر مراد علم والوں سے وہ ہیں جو دین کا علم رکھتے ہیں، جن کے عقائد و اعمال درست ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر)
حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کسی آدمی سے میرا جھگڑا ہوگیا تو میں نے اسے: ’’اے کالی عورت کے بیٹے کہہ کر پکارا۔‘‘
حضور نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:
’’اے ابوذر! یہ مت بھولو کسی گوری کے بیٹے کو کالی کے بیٹے پر فضیلت نہیں ہے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ مجھ پر خوف طاری ہوگیا، اسی وقت میں اس آدمی کے پاس پہنچا اور کہا:
’’اٹھو! اور اپنا پیر میرے مونہہ پر رکھو، تاکہ میرے قول کا بدلہ ہو جائے۔‘‘
سبحان اﷲ! یہ تھا صحابیؓ کا عمل۔ ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔
حسن و جمال سے غرور گھمنڈ پیدا ہوتا ہے، اس مرض میں خوب صورت مرد بھی گرفتار رہتے ہیں، مگر عورتیں سب سے زیادہ اس مرض میں گرفتار رہتی ہیں، شکل و صورت پر طنز کرنا اور جسم کی نا ہم واری پر مذاق اڑانا عام بات ہے۔ دولت مند لوگ غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اپنی بڑائی اور گھمنڈ میں مست رہتے ہیں۔ متکبر چاہتا ہے کہ لو گ اس کے سامنے کھڑے ہوں اور اس کے واسطے سروقد کھڑے ہوا کریں۔ حضور تاج دار مدینہ ﷺ اس امر سے کراہت فرماتے تھے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی دوزخی کو دیکھنا چاہے اس سے کہہ دو کہ اس آدمی کو دیکھ لے جو خود تو بیٹھا ہُوا اور لو گ اس کے سامنے کھڑے ہوں۔
متکبر کسی کی ملاقات کو نہیں جاتا۔ حضرت سفیان ثوریؒ مکہ معظمہ پہنچے تو حضرت ابراہیم بن ادھم نے ان کو بلایا کہ یہاں آکر مجھ سے حدیث روایت کرو۔ وہ چلے آئے حضرت ابراہیم نے کہا میں نے چاہا کہ تمہاری تواضع آزماؤں۔ متکبر کبھی یہ نہیں چاہتا کہ فقیر اس کے پاس بیٹھیں۔ متکبر اپنے گھر میں کچھ کام نہیں کرتا۔ ہمارے حضور ﷺ سب کام خود کرتے تھے۔ متکبر سودا بھی بازار سے خود اپنے گھر نہیں لے جاتا۔ ایک دن حضور نبی کریم ﷺ نے کوئی چیز لی اور خود لے جارہے تھے ایک ایک شخص نے چاہا کہ میں لے چلوں آپ ﷺ نے نہیں دیا اور فرمایا کہ جس کی چیز ہے اسی کا لے جانا بہتر ہے۔
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’اے عزیز! گمان نہ کرنا کہ جتنے اچھے کپڑے ہیں سب تکبر ہی کی وجہ سے ہوتے ہیںِ، کیوں کہ آدمی ہر چیز میں نفاست اور اچھائی کو دوست رکھتا ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ خلوت میں بھی اچھے ہی کپڑے کو دوست رکھتا ہو۔ اور کوئی شخص پرانا پہن کر بھی تکبر کرتا ہے اس سے اپنے تئیں زاہد ظاہر کرتا ہے۔‘‘
جو لوگ غرور تکبر کی روش اپنائے رہتے ہیں بہ طور سزا ایسے لوگوں کو کتاب الٰہی قرآن پاک کے سمجھنے کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے:
’’اور اپنی آیات سے میں انھیں پھیر دوں گا جو زمین پر ناحق اپنی بڑائی چاہتے ہیں۔‘‘
حضرت عباسؓ فرماتے ہیں کہ رب فرماتا ہے کہ اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں فضول بے جا اور ناحق بات پر تکبر کرتے ہیں اور اترائے جاتے ہیں۔
تفسیر میں ہے متکبرین کے دل سے فہم قرآن اٹھا لیا جائے گا اور عالم ملکوت اور ان کے قلوب کے درمیان حجاب پیدا کر دیا جاتا ہے، غرور کی وجہ سے ان کو آیات الٰہی میں غور و فکر سے پھیر دیا جاتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
اﷲ پاک تکبر کرنے والوں کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ گھمنڈ کرنے والے غور کریں اﷲ کی جانب سے کتنا سخت عذاب ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس مہلک بیماری سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین