دوسری جانب پاکستان نے افغان صوبہ قندھار اورکابل میں نپے تلے فضائی حملے خالصتاً افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پرکیے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری سے وزیراعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزراء نے ملاقاتیں کیں، جس میں داخلی و خارجی سیکیورٹی صورتحال پر گفتگو کی گئی، صدر اور وزیراعظم نے افغان جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے پاک فوج کی چوکسی اور مہارت کی تعریف کی، وزیراعظم نے کہا کہ ملکی سلامتی کا ہر صورت دفاع کیا جائے گا۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان میں جوابی کارروائی کے بعد افغان طالبان کی حکومت پر دباؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور وہ کمزور ہوتی جا رہی ہے، اگرچہ جھڑپیں تو رک چکی ہیں لیکن صورت حال اب بھی انتہائی نازک ہے۔ سرحدیں مکمل طور پر بند کردی گئی ہیں جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور آمد و رفت معطل ہو چکی ہے۔ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان بگڑتا ہوا تنازع علاقائی سلامتی کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
درحقیقت پاکستان پر حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب عبوری افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر تھے اور اس دوران انھوں نے نہ صرف پاکستان مخالف بیانات جاری کیے بلکہ کشمیرکو بھارت کا حصہ بھی تسلیم کیا۔
ایک طرف افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کی دہلی میں بیٹھ کر بیان بازی اور دوسری طرف سرحد پر اشتعال انگیزی کے بعد کابل اور دہلی کے درمیان وہ ہم آہنگ منصوبہ بے نقاب ہوگیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو غیر اعلانیہ جنگ، پراپیگنڈے اور سفارتی دباؤ کے ذریعے غیر مستحکم کرنا ہے اور اس کی پیش بندی پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کے اطراف ایک عرصے سے ہو رہی تھی۔
بھارت میں بڑھتی ہوئی افغان سرگرمیوں اور سرحد پر عسکری کارروائیوں میں ایک منظم تسلسل ہے جس کا مقصد پاکستان دشمن عناصرکو سیاسی تحفظ دینا ہے۔ افغان طالبان فورسز کی جانب سے بیک وقت مختلف صوبوں سے سرحدی علاقوں پر حملے ظاہر کرتے ہیں کہ ان کارروائیوں کے پیچھے کوئی مرکزی منصوبہ بندی کارفرما ہے۔ اس منصوبہ بندی پر خطے کے ایسے عناصر کا اثر ہے جو جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
عبوری افغان حکومت کی تحریک طالبان پاکستان عناصر سے بڑھتی ملی بھگت دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو مزید کمزورکر رہی ہے، اگرکابل نے یہ پالیسی جاری رکھی تو اسے خطے میں مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انڈیا، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے اتحادکو ایک بڑے علاقائی گیم پلان کے تناظر میں بھی پرکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف جارحیت اور انڈیا کے ساتھ دوستی کابل کو کتنی مہنگی پڑے گی؟ افغان عبوری حکومت اپنے عوام کی فلاح کے بجائے تخریبی اتحادوں اور بیرونی اثرات کو ترجیح دے کر خود اپنے شہریوں سے دوری اختیار کر رہی ہے۔
افغان عوام تعلیم، صحت، تجارت اور روزگار کے لیے دہائیوں سے پاکستان پر انحصار کرتے آئے ہیں اور اگر کابل نے یہی روش برقرار رکھی تو پاکستان کے یہ دروازے جو ماضی میں افغان عوام کی بقا اور روابط کا ذریعہ رہے ہیں، بند ہو جائیں گے۔ ان پالیسیوں سے نہ صرف افغانستان علاقائی طور پر مزید تنہا ہو جائے گا بلکہ اس کے عوام اور پناہ گزینوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔
حالیہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آنے والا وقت خطے میں مزید کشیدگی لائے گا اور پاکستان کو بیک وقت افغان طالبان اور انڈیا کی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہو گا، وہ جارحیت عسکری کے ساتھ ساتھ پراپیگنڈے کے میدان میں بھی ہو گی۔ پاکستان کا ایک طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، وہاں سے ہونے والی دہشت گردی کو بھارت سپورٹ کر رہا ہے۔
پاکستان جب بھی طالبان حکومت کے سامنے یہ معاملہ رکھتا تھا تو ان کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی فتنہ الخوارج کے لوگ ان کے کنٹرول میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چار روز قبل پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف سرزمین استعمال کرنے کی قیمت چکانا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کابل میں فتنہ الخوارج کے مرکز اور لیڈر شپ کو نشانہ بنایا ہے۔ آئی ایس پی آر کا اعلامیہ بڑے واضح انداز میں بتا رہا ہے کہ پاکستان افغانستان کو اب پہلے جیسا ٹریٹ نہیں کرے گا۔ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو اپنا دہرا معیار ختم کر نا ہوگا اور فتنہ الخوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
اس صورتحال میں پاکستان دو اہم فیصلے کر چکا ہے کہ اب اگر پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہوئی تو پاکستان کو خود کارروائی کا حق حاصل ہے۔ دوسرا پاکستان افغان مہاجرین اور غیر قانونی افغانوں کے انخلا سے متعلق سخت پالیسی نافذ کرنے جا رہا ہے۔
پاکستان میں امن و استحکام کے لیے غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے۔ دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا جس کے بعد افغان مہاجرین کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ غیر قانونی مقیم مہاجرین کے کچھ عناصر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کی خرابی اور جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔
صرف رواں ماہ ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے حملوں میں فوجی افسران سمیت پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد شہید ہوچکی ہے۔ یہ سال گزشتہ دہائی کا سب سے خون ریز سال ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کا افغان طالبان انتظامیہ کے خلاف صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جو ٹی ٹی پی کے دھڑوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرنے سے مسلسل انکاری ہے جنھیں وہ سرحد پار حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسٹریٹجک اعتبار سے دو اہم صوبوں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جو کہ شدت پسندانہ حملوں کے مراکز ہیں، وہاں سیاسی عدم استحکام نے کالعدم گروہوں کو سرگرم عمل ہونے کا زبردست موقع فراہم کیا ہے۔ افغانستان سے پاکستان پر حملے کی یہ صورتِ حال اچانک پیدا نہیں ہوئی، برسوں کی سازشیں، سرحد پار اڈوں کا استعمال اور غیر ریاستی گروہوں کو افغان حکومت کے پناہ دینے کی خاموش روایتیں ہی آج اس تناؤ کی بنیاد ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان قیادت کو واضح شواہد دے کر کہا کہ تحریکِ طالبانِ پاکستان، داعش، خراسان اور دیگر شدت پسند گروہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
اس مسئلے پر جب افغانستان کی طرف سے سنجیدگی نظر نہ آئی اور وہاں سے مسلسل پاکستان مخالف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ یہ سلسلہ بڑھ کر پاکستان پر حملے تک آپہنچا تو دفاعی اداروں کو اپنی زمینی اور فضائی صلاحیتیں بروئے کار لانا پڑیں۔
ایک اور پہلو جو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا وہ ہے اطلاعاتی جنگ اور سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ۔ دشمن قوتیں، خاص طور پر بھارتی خفیہ ایجنسیاں محض عسکری حملوں تک محدود نہیں رہتیں، وہ غلط معلومات، جھوٹے بیانات اور اشتعال انگیز پیغامات کے ذریعے معاشرتی انتشار بھی پھیلاتی ہیں۔ اس لیے حکومت کو میڈیا کمیونیکیشن، شفاف اطلاعات اور سچائی کی فراہمی میں فعال رہنا ہوگا تاکہ عوام میں درپیش خطرات، سرحدی حالات اور ریاستی اقدامات کے پیچھے کے منطقی دلائل سمجھائے جاسکیں معاشی اور سفارتی راستے بھی اسی نسبت سے اہم ہیں۔
خطے میں امنِ سرمایہ کاری، تجارتی راہ داری اور توانائی کے منصوبے وہ مشترکہ مفادات ہیں جو افغان قوم کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جب کابل کے عوام کو معلوم ہوگا کہ امن کے ذریعے ان کی معیشت بہتر ہوگی، روزگار بڑھے گا اور بنیادی سہولتیں بہتر ہوں گی تو وہاں کے حکمرانوں پر بھی عوامی دباؤ بڑھے گا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کریں۔
آیندہ کے لیے واضح کرنا ہے کہ اگر داعش، فتنہ خوارج اور مسلح خفیہ نیٹ ورکس نے اپنے عزائم ترک نہ کیے تو پاکستان مجبوراً خود اپنے دفاع کے لیے کارروائی جاری رکھے گا، مگر حقیقی فتح وہی ہے جو امن، ترقی اور بھائی چارے کے ذریعے حاصل ہو، اور اس امن کے لیے افغان اقتدار پر بیٹھے سخت گیر حکمرانوں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ بھارتی قربتیں تو افغانستان کو کبھی کوئی فائدہ نہ دے سکیں گی، بھارتی حکمران تو فتنہ انگیزیاں چاہتے ہیں جس سے افغانستان کو دامن بچانا ہوگا، افغانستان کا حقیقی بہی خواہ صرف پاکستان ہے، افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا۔