بھارت کے ساتھ کون سے ممالک امریکا کے گرین کارڈ لاٹری ویزا سے محروم؟

امریکا کا ”ڈائیورسٹی ویزا پروگرام“ یا ”گرین کارڈ لاٹری“ دنیا بھر کے لاکھوں افراد کے لیے امید کی ایک کرن سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ فیصلے کے مطابق، بھارتی شہری کم از کم 2028 تک اس پروگرام میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

یہ اعلان نہ صرف بھارت بلکہ ان تمام ممالک کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ امریکا ہجرت کرتے ہیں۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد امیگریشن کے توازن کو برقرار رکھنا ہے، کیونکہ یہ پروگرام ان ممالک کے شہریوں کے لیے ہے جہاں سے امریکا میں آنے والوں کی تعداد کم ہو۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق اس پروگرام کے تحت وہی ممالک اہل ہوں گے جن سے گزشتہ پانچ برسوں میں 50 ہزار سے کم لوگ امریکا منتقل ہوئے ہوں۔ چونکہ بھارت سے ہر سال ہزاروں افراد مختلف ویزوں کے تحت امریکا جاتے ہیں، اس لیے وہ خودبخود اس پروگرام کے دائرے سے باہر ہو گیا ہے۔

اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف 2022 میں ایک لاکھ 27 ہزار سے زائد بھارتی شہری امریکا منتقل ہوئے، جو کئی برِاعظموں کے مجموعی اعداد سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ چین، جنوبی کوریا، پاکستان اور کینیڈا جیسے ممالک کو بھی آئندہ چند برسوں کے لیے اس لاٹری سے خارج کر دیا گیا ہے۔

یہ فیصلہ بھارتی شہریوں کے لیے امیگریشن کے مواقع مزید محدود کر دیتا ہے۔ اب ان کے پاس صرف چند راستے باقی رہ جاتے ہیں, مثلاً H-1B ورک ویزا کو مستقل رہائش میں تبدیل کرنا، سرمایہ کاری کے ذریعے امیگریشن حاصل کرنا، خاندان کے ذریعے اسپانسرشپ، یا پناہ کی درخواست دینا۔ مگر ان راستوں پر بھی رکاوٹیں بڑھتی جا رہی ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امیگریشن پالیسیوں میں سختی کا رجحان بڑھا، جس کے تحت طالب علموں اور دیگر درخواست دہندگان کے پس منظر کی جانچ میں سوشل میڈیا سرگرمیوں اور سیاسی وابستگیوں کو بھی مدِنظر رکھا جانے لگا۔ ان اقدامات کا مقصد امریکی قومی سلامتی کو یقینی بنانا بتایا گیا۔


AAJ News Whatsapp

اگرچہ موجودہ پالیسیوں نے بھارتی شہریوں کے لیے امریکی امیگریشن کے راستے کچھ حد تک محدود کر دیے ہیں تاہم، امید کی کرن اب بھی باقی ہے، ٹیکنالوجی، تعلیم اور کاروبار کے میدان میں بھارت اور امریکا کے تعلقات اب بھی مضبوط ہیں، اور ممکن ہے مستقبل میں حالات ایک بار پھر بہتر رخ اختیار کریں۔

جن ممالک کے شہری 2026 کی امریکی ڈائیورسٹی ویزا لاٹری میں حصہ نہیں لے سکیں گے اگلے برسوں میں اگر ان ممالک سے امریکا ہجرت کرنے والوں کی تعداد کم ہو جائے تو وہ دوبارہ اہل قرار پا سکتے ہیں۔

امیگریشن کا یہ سفر صرف سرحدوں کا نہیں بلکہ علم، مواقع اور عالمی تعاون کا بھی ہے، اور یہی وہ خواب ہے جو دنیا بھر کے باصلاحیت افراد کو امریکا کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ شاید آنے والے سالوں میں امریکہ ایک بار پھر اپنے دروازے اُن خواب دیکھنے والوں کے لیے کھول دے، جو اپنی محنت اور صلاحیت سے نئی دنیا تعمیر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

Similar Posts