امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس کے غیر مسلح ہونے کی کوئی ٹائم لائن نہیں، میری اپنی ٹائم لائن میرے دماغ میں ہے، 50 ہزار حماس کارکن مارے جاچکے ہیں، یہ بڑے جھگڑالو لوگ ہیں، ہم غزہ میں فوج بھیجے بغیر حماس غیر مسلح کریں گے۔
ترک خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کے مطابق اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس کے ہتھیار ڈالنے کے لیے کوئی مخصوص یا ”سخت ٹائم لائن“ طے نہیں کی گئی۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے اپنے ہتھیار نہیں چھوڑے تو امریکا، اس کے اتحادی یا اسرائیل خود کارروائی کر سکتے ہیں۔
انٹرویو میں صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس حماس کے غیر مسلح ہونے کے لیے کوئی مقررہ مدت ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ”میرے پاس کوئی سخت وقت مقرر نہیں، ہم دیکھیں گے کہ معاملات کیسے آگے بڑھتے ہیں۔“
جب امریکی صدر سے صحافی نے مزید پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ حماس واقعی اپنے ہتھیار ڈال دے گی، جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ حماس گروپ نے ایسا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن اگر اس نے وعدہ پورا نہ کیا تو ”طاقت کے استعمال“ سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ”انہوں نے کہا ہے کہ وہ ایسا کریں گے لیکن اگر ضرورت پڑی تو ہم خود انہیں غیر مسلح کر دیں گے۔ چاہے وہ میں ہوں، امریکا ہو، یا کوئی نمائندہ جیسے اسرائیل، ہماری حمایت کے ساتھ البتہ ہم زمینی فوج نہیں بھیجیں گے۔“
جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات
رواں ماہ کے آغاز میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 20 نکاتی جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ طے پایا، جو صدر ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے پر مبنی ہے۔
اس مرحلے کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے جب کہ معاہدے میں غزہ کی تعمیرِ نو اور حماس کے بغیر ایک نئے انتظامی ڈھانچے کے قیام کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
غزہ میں تباہی اور انسانی بحران
اقوامِ متحدہ اور مقامی ذرائع کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 68,000 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ غزہ کی بڑی آبادی بے گھر ہو چکی ہے، بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے اور علاقہ اب بڑی حد تک غیر رہائشی بن چکا ہے۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق اگرچہ جنگ بندی معاہدہ غزہ میں امن کی ایک نئی امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن حماس کے غیر مسلح ہونے اور نئے انتظامی ڈھانچے کے قیام سے متعلق سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔