زباں فہمی265 کچھ ’نکاتِ سخن ‘ کے بارے میں  (حصہ پنجم/آخر)

زباں فہمی265

کچھ ’نکاتِ سخن ‘ کے بارے میں

 (حصہ پنجم/آخر)

 

سہیل احمدصدیقی

zabaanfehmi@gmail.com

 پچھلی قسط کے اَخیر میں (یہ آخر نہیں) ’’آئے ہے، جائے ہے‘‘ وغیرہ کے متعلق حسرتؔ موہانی کا بیان نقل کیا تھا اور پھر یہ عرض کی تھی کہ اس کے بعد راقم کی رائے دیکھیے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید دور میں بھی کہیں کہیں، ان متروکات کا استعمال ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انھیں قبولِ عام کی سند بہرحال نہیں ملی۔ اسی ضمن میں حسرتؔ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ضرورتِ شاعری کے خاص موقعوں پر بشرطِ مشّاقی ٔ کامل اِن کے استعمال میں بھی کچھ مضائقہ نہ ہونا چاہیے، مثلاً میرزا نسیم ؔ دہلوی کا ایک مصرع ہے ’رحم آجاتا ہے، دشمن کی گرفتاری پر‘۔ میرزا صاحب اگر اِ س میں زبانِ لکھنؤ کی پابندی سے آزاد ہوکر ’رحم آجاتا ہے‘ کی جگہ ’رحم آجائے ہے‘ لکھتے تو کچھ ہرج نہ ہوتا، بلکہ غالباً بہتر ہوتا‘‘۔ راقم اس بیان کی تائید کرتا ہے۔ حسرتؔ نے ایک اور مثال بیخودؔ دہلوی (تلمیذ ِ داغؔ) کے ایک شعر سے دی اور پھر ’’آئے ہے، جائے ہے‘‘ ودیگر مماثل متروکات کی مثال میں سوداؔ، حسرتؔ ۔ استاد ِجرأتؔ، قائمؔ ، میر حسنؔ، مصحفیؔ ، جرأت، سرورؔ کاکوروی، تنہاؔ (تلمیذِ مِصحفی)، شہیدیؔ ، زکیؔ مرادآبادی، مذاقؔبدایونی، غالبؔ، میر حسن تسکینؔ ، شاکی ؔ میرٹھی، عاشق ؔ دہلوی اور اسماعیلؔ میرٹھی کے اشعار پیش کیے ہیں، مگر حیرت کی بات ہے کہ غالبؔ ہی کا مشہور ِ زمانہ شعر اُنھیں یاد نہ رہا:

جائے ہے جی نجات کے غم میں

ایسی جنت گئی، جہنم میں

’اوری ‘بجائے اورہی اور ’ساتھی‘ بجائے ساتھ ہی

یہ انوکھی متروکات آج کے پڑھے لکھے شاعر کو چونکانے کے لیے کافی ہیں۔ حسرتؔ نے وضاحت کی کہ ان کا استعمال متوسط عہد کے لکھنوی شعراء، علی الخصوص (بالخصوص صحیح نہیں) ناسخؔ کے تلامذہ ہی کے یہاں ملتاہے۔ اس ضمن میں انھوں نے رشکؔ لکھنوی کے دو اور مہرؔ لکھنوی کا ایک شعر پیش کیا۔

الفاظِ فارسی مثلاً ناگوار، زیاد، فرصت، محنت وغیرہ۔

اس باب میں حسرتؔ نے غالبؔ، ناظمؔ، میر مہدی مجروحؔ، اشرفؔ کسمنڈوی اور خود اَپنے اشعار سے مثالیں پیش کرنے کے بعد ارشادفرمایا کہ ’’نشان زدہ کُل الفاظِ فہرست، متروکاتِ جائز میں داخل ہیں ;جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ خاص موقعوں پر بشرطِ کُہنہ مشقی وبطورشاذ، ان کا استعمال ممنوع نہیں، لیکن عموماً اُن کا ترک ہی اولیٰ ہے‘‘۔ یہ وضاحت کافی ہے۔

ایک اور انوکھا لفظ بجائے مکمل فقرہ: بلبئے بجائے’’ اللّہ رے‘‘

اس کی بابت مؤلف موصوف نے کچھ بیان کرنے کی بجائے فقط تین اشعار سے مثال واضح کرنے کی سعی فرمائی جن کے شاعر مسرورؔکاکوروی، خواجہ وزیرؔ اور تنویرؔ دہلوی ہیں۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

واہ ری تاثیر ِ الفت! بلبئے فرطِ اتحاد

غش پہ غش آتے ہیں، مجھ کو جب نہیں آتی ہے نیند

’ پنے ‘ بجائے ’پن‘۔

یہ ایک بہت دل چسپ بیان ہے کہ ہندی الاصل الفاظ کے ساتھ ’پن‘ کا استعمال تو رائج اور فصیح ہے، مگر فارسی الاصل الفاظ کے ساتھ ایسا کرنا صحیح نہیں سمجھا جاتا، حتیٰ کہ بقول مؤلف موصوف ’’ناز ک پن اور دیوانہ پن کو بھی غیرفصیح قراردیتے ہیں‘‘۔ پھر حسرتؔ فرماتے ہیں کہ ’’راقم کے نزدیک، اردو زبان کے دائرے کو اس درجہ محدود کرنا کسی طرح مناسب نہیں، تاہم اس باب میں حد سے بڑھنا بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا‘‘۔ انھوں نے بعض شعرائے لکھنؤ کا حوالہ دیا کہ وہ تو فارسی الفاظ کے ساتھ، پن کے علاوہ ’پنے‘ کا استعمال بھی جائز سمجھتے ہیں، مگر اِس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ یہاں انھوں نے ماہرؔ لکھنوی کے دو شعر بطور مثال نقل کیے ہیں:

آئینہ لے ہاتھ میں گرتے ہیں مُنھ کے بل

اس نازنیں پنے پہ خود اُن کی نظر نہیں

اور

نازک پنے سے چھین جو لوگے تو ہوگا کیا

کیونکر اُٹھیں گے ناز، دلِ بیقرار کے

 ’پہ ‘ بجائے ’پر‘

حسرتؔ موہانی اس کے اس طرح قائل تھے کہ متروک قرار دینے کے باوجود، اس کا استعمال غلط نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے دلیل کے طور پر یہ لکھا کہ ’’تسلیمؔ و جلیل ؔ و نظم تک کے کلام میں اس کی مثالیں ملتی ہیں‘‘۔ یہاں مؤلف موصوف نے قدیمؔ (نامعلوم کہاں سے تعلق تھا)، مصحفیؔ، جرأتؔ ، غالبؔ ، اسیرؔ لکھنوی، تسلیمؔ لکھنوی، نظم طباطبائی اور جلیل ؔ مانک پوری کے اشعار درج کیے ہیں۔ ’پہ ‘ کا استعمال لیکن کی جگہ ماقبل مذکور ہوا۔ غالبؔ کا شعر دیکھیے:

میں نے چاہا تھا کہ اَندوہ ِ وَفا سے چھُوٹُوں

وہ ستمگر مِرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

اور یہ ملاحظہ فرمائیے کہ جلیلؔ مانک پوری نے کیفیت سے بھرپور اِس شعر میں کس قدرچابک دستی سے استعارہ برتا ہے:

رُوئے رنگیں پہ پسینے کا عجب عالَم تھا

آب وآتش کو بَہَم دست وگریبا ں دیکھا

بات کی بات ہے کہ آج سَو سال کے بعد بھی ’پہ‘ کا استعمال سرے سے ختم نہیں ہوا، کہیں کہیں دکھائی دے جاتاہے۔

 بارے

’پہ ‘ کی طرح ’بارے ‘ کے متعلق بھی حسرتؔ کی رائے وہی ہے کہ متروک مگر جائز ہے۔ استعمال کی مثالوں میں اوّلین جرأت ؔ کا شعر ہے جس میں بارے اس طرح استعمال ہوا:

دل کے لگ جاتے ہی جی تَن سے ہمارے نکلا

دل لگانے کا تھا ارماں، سو بارے نکلا

یہاں تو مفہوم یہ کہ ہونا ہی تھا، سو ہوکر رہا۔

جرأتؔ کے ایک اور شعر کے بعد بہادرشاہ ظفرؔ ، ناسخؔ ، مہرؔ لکھنوی، زکی دہلوی، اسماعیل میرٹھی اور خود حسرتؔ موہانی کے اشعار نقل کیے گئے ہیں، جبکہ میرؔ کا یہ شعر اِن میں شامل نہیں کیونکہ اس کا استعمال ’خواہ‘ کے معنیٰ میں ہوا ہے:

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

  ’ بِیچ‘ بجائے ’میں‘ اور ’درمیاں‘

اسے بھی جائز متروکات میں شمار کیا گیا ہے، جس کا تَرک اولیٰ ہے، مگر بقول حسرتؔ ، ’’خواص کے لیے اس کے استعمال میں مضائقہ بھی نہیں‘‘۔ یہاں میرؔ ، نامعلوم شاعر، حسرتؔ موہانی اور ماہرؔ لکھنوی کے اشعار دیے گئے ہیں۔

 ’جُوں‘ بجائے مانند

اس بابت فقط دو شعر نقل کیے گئے ہیں، کوئی عبارت نہیں دی گئی یعنی حسرتؔ کے نزدیک اتنا اہم لفظ نہیں تھا کہ اس کے ترک کے بارے میں لکھا جاتا۔ اس کے بعد ’جوکہ، یا کہ جو ‘ بجائے ’جو‘ کا باب ہے، مگر میرے نزدیک یہ اہم نہیں، اس لیے صَرفِ نظر کرتا ہوں۔

 ’عاقبت‘ بجائے آخرکار

یہاں حسرتؔ نے بجا ارشاد فرمایا کہ اس مفہوم میں عاقبت کا استعمال فارسی سے آیا ہے اور فارسی پر عبور رکھنے والے شعراء کے یہاں اس کی مثال ملتی ہے جیسے شیفتہ ؔ:

عاقبت چاہِ ذقن میں خبر اُس کی پائی

مدتوں سے نہیں لگتا تھا ٹھکانا دل کا

 ’کیونکہ‘ بجائے کیونکر

ولیؔ گجراتی دکنی سے لے کر تلامذہ غالبؔ تک اس کا استعمال ہوتا رہا، مگر یہ بالاتفاق متروک قرار پایا جیسا کہ مؤلف موصوف نے بیان کیا۔ مثالیں:

ولیؔ:

کیونکہ حاصل ہو مجھ کو جمعیت

زُلف تیری قرار کھوتی ہے

میر ممنونؔ:

گماں نہ کیونکہ کروں تجھ پہ دل چُرانے کا

جُھکا کے آنکھ سبب کیا ہے مُسکرانے کا

غالبؔ:

جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکہ ہو رَشکِ فارسی

گفتہ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یوں

حسرتؔ نے اس متروک لفظ کی نشان دہی کرتے ہوئے دیگر شعراء کے کلام کے بعد، ایک شعر اَپنا بھی پیش کیا اور مزید لکھا کہ ’’آج کل ’کیونکہ‘ کی جگہ کیسے بولتے ہیں، تاہم ان دونوں کے مفہوم میں جو خفیف فرق ہے وہ اہل ِ نظر پر روشن ہے، اگرچہ بذریعہ الفاظ اس کا اظہار دشوار معلوم ہوتا ہے‘‘۔ یہاں تک بات صحیح ہے لیکن ’کیونکر‘ بمعنیٰ کیسے ، 2025ء میں بھی رائج ہے۔

کیجے، دیجے بجائے کیجئے، دیجئے، ہوجئے بجائے ہوجائے

اس باب میں اوّلین شعر میرؔ کا ہے اور آخری خود مؤلف موصوف کا، مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ اصل لفظ تو یہی تھے، ہمزہ (یا بعض لوگوں کے نزدیک اضافی یے: کیجیے وغیرہ) کے بغیر، مدتوں اس قسم کے الفاظ کے ساتھ ہمزہ۔یا۔ حرفِ یا لگانے کی وجہ ان کا مشکل املاء ہے۔ حسرتؔ کا شعر ملاحظہ فرمائیں:

کیا کیجے بیاں اُس تنِ نازک کی  حقیقت

خوشبو میں ہے گُل بُو تو لطافت میں ہے سب رنگ

آئیو بجائے آنا، جائیو بجائے جانا، ملیو بجائے ملنا، چلیو بجائے چلنا، کہیو بجائے کہنا، دیجو بجائے دینا، لگیو بجائے لگنا ہوجیو بجائے ہونا وغیرہ۔

اس ضمن میں میر سوزؔ، میردردؔ ، ضیاء (استادِ میر حسنؔ)، میر حسنؔ، قائمؔ، مصحفیؔ، قدرتؔ ، ممنونؔ ، غالبؔ ، نواؔ بدایونی، تنہاؔ، اسیرؔ، نادرؔ ، اشرفؔ کسمنڈوی، حالیؔ، اثرؔ عظیم آبادی اور خود حسرتؔ موہانی کے اشعار پیش کیے گئے ہیں، جبکہ غالب ؔ کے دو شعروں میں یہ شعر شامل نہیں:

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں، مجھ کو اے ندیم

میرا سلام کہیو، اگر نامہ بر ملے

حیرت کی بات ہے کہ حسرتؔ نے ’گر‘ بجائے اگر کو بھی متروکات میں شمار کیا ہے جو آج بھی مستعمل ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے زکیؔ دہلوی اور عرشؔ لکھنوی کے شعر نقل کیے ہیں۔

ہووے بجائے ہو، دیوے بجائے دے، لیوے بجائے لے وغیرہ

یہ متروکات ظاہر ہے کہ کبھی مشہور تھے اور معیاری زبان سے یقیناً متروک ہوچکے ہیں، لیکن بولی ٹھولی میں بعض جگہ ان کا چلن باقی ہے۔ یہ وضاحت یہ زباں فہم سہیل کررہا ہے، ورنہ حسرتؔ نے اس بابت ایک لفظ لکھے بغیر پانچ شعراء بشمول جعفرعلی حسرتؔ، جرأت، عیشیؔ ، ظفرؔ اور غالبؔ کے شعر بطور مثال پیش کیے ہیں۔

’مارے ‘ بمعنیٰ سبب

یہاں بھی مجھے یہی کہنا ہے کہ معیاری ادبی زبان میں اس کا چلن کم ہوا ہے، مگر ہماری بول چا ل سے ’مارے ‘ بمعنیٰ سبب ختم یا متروک نہیں ہوا۔ یہاں حسرتؔ نے مصحفیؔ ، مخمورؔ، غافلؔ، ناسخؔ، رشکؔ ، خواجہ وزیرؔ ، بحرؔ لکھنوی، منشی منیر ؔ اور خود اَپنے شعر لکھے ہیں۔

’مگر‘ بمعنیٰ شاید

یہ یقیناً متروک ہے۔ حسرتؔ نے متعدد شعراء کے اشعار نقل کیے اور آتش ؔ کا ایک شعر ایسا بھی پیش کیا جس میں اتفاقاً مگر اور شاید دونوں ہی استعمال ہوئے ہیں:

مگر جانا نہیں شاید کہ یاں سے اہل عالم کو

یہ دو دِن کے لیے کیا قصر و اَیواں مول لیتے ہیں

’نے‘ بجائے نہ

یہ بہت ہی مشہور متروک لفظ ہے۔ حسرتؔ نے بلاتمہید بارہ شعراء کا نمونہ کلام نقل کیا جن میں غالبؔ بھی شامل ہیں، مگر اُن کا مشہورِزمانہ شعر شامل نہیں کیا جو بندہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہے:

رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

’وصلت‘ بجائے وصل

اس متروک لفظ کے متعلق کوئی وضاحت نہیں، البتہ یہ متأخرین شعراء کے یہاں کہیں کہیں استعمال ہوا ہے۔ اس ضمن میں حسرتؔ نے اسیرؔ لکھنوی، رشکؔ لکھنوی، بحرؔ لکھنوی، خواجہ وزیر، مشتاق لکھنوی اور نظمؔ لکھنوی کے اشعار پیش کیے ہیں۔ یہ لفظ بھی فارسی کے اثر سے استعمال ہوتا رہا ہے۔

’لیک‘، ولیک، ولیکن‘ بجائے لیکن

ان متروکات کی مثالیں قدیم شعراء میں متقدمین تا متأخرین بہت ہیں اور ہرچند کہ حسرتؔ کے دور میں متروک ہوچکے تھے، ان میں ولیک اور ولیکن کا استعمال مابعد کے شعراء میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس پُرمغز موضوع پر مبنی نہایت وقیع کتاب ’نکاتِ سخن‘ کا احاطہ کرنے کو بھی ایک پوری کتاب درکار ہے۔ خاکسار بوجوہ اختصار سے کام لے رہا ہے۔ یہاں دیگر متروکات ِ سخن کی مثالوں سے گریز کرتے ہوئے ایک بہت ہی چونکا دینے والی مثال پیش کرتا ہوں۔ چونکہ اُستاد شاعر، بہادرشاہ ظفرؔ اُردو اور ہندی کے علاوہ پنجابی میں بھی طبع آزمائی کیا کرتے تھے تو اُن کے کلام میں ’پنجابیت‘ بھی دَر آئی ہے۔ ’نے‘ بجائے کو، کا استعمال تو جدید دور میں عام ہوا، مگر اس سے بہت پہلے ظفرؔ یہ بھی کہہ گئے ہیں:

ہم نے ہے خوب اُس کی طرزِناز پہچانی ہوئی

چال پہچانی ہوئی،آواز پہچانی ہوئی

لے کے دل کو جان تو چھوڑے بھلا امکان کیا

خوب ہی ہم نے تجھے ہے دل ستاں دیکھا ہوا

حسرتؔ نے بجا گرفت فرمائی کہ ’’ہم نے اُس کی طرز…..کی جگہ، اُس کی طرزِناز ہماری خوب پہچانی ہوئی ہے ۔یا۔ ہم اس کی طرزِناز کو خوب پہچان چکے ہیں، ہونا چاہیے‘‘۔

اس موضوع پر لکھتے ہوئے مجھے تو بہت مزہ آیا، کاش ہمارے عہد کے شعراء بھی اپنے کو ’فارغ الاصلاح‘ سمجھنے کی بجائے اس قسم کے نوادر سے استفادہ کرلیا کریں۔ (مکمل)

Similar Posts